کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 402
کرتے۔ راتوں کو تہجد بھی پڑھتے اور سوتے بھی تھے۔ آپ نے شادیاں بھی کیں، اور اولاد بھی ہوئی۔ جس کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ اس میں اپنی طرف سے ملاوٹ کی، وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی اس کا یہ عمل اللہ کی راہ میں قبول ہوگا اس لیے کہ یہ اس کے نبی کی سنت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔
اور دین میں زیادہ گہرائی میں جانے سے اس لیے منع کیا کہ اس سے سنت کے تقاضے ختم ہوتے ہیں۔ سنت کا تقاضا یہ ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم آجائے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر لیاجائے، بھلے اس کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے اور مسائل کو کریدنے سے شکوک و شبہات اور اوہام پیدا ہوتے ہیں، جن سے ایمان کو سلامتی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس لیے حکم دیا کہ گہرائی میں جانے کے بجائے سر تسلیم خم کرتے ہوئے سنت پر عمل کیا جائے۔
دین عتیق سے مراد صحابہ کرام کے وقت کا طریق کار ہے۔ وہ لوگ بدعات سے بچے ہوئے تھے۔ انہوں نے دین کو پاکیزہ دلوں کے ساتھ ایسے ہی قبول کیا جیسے انہیں حکم ملا تھا، او راپنی مرضی سے اس میں قیل و قال کرکے بات کا بتنگڑ نہیں بنایا، اور نہ ہی کسی چیز کو حقیر سمجھ کر ترک کیا، بلکہ پورے کے پورے دین پر سنت کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا رہے۔ او ردین کو ویسے ہی محفوظ ومامون ہم تک پہنچایا جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں ملا تھا۔
آج بھی کامیابی اسی میں ہے کی اسی عقیدہ و عمل کو اپنے لیے حزر جان بنایا جائے۔
دین ِ عتیق کیا ہے؟
108 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((واعلم أنَّ [الدین] العتیق: ما کان من وفاۃ رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم إلی قتل عثمان بن عفان رضی اللّٰه عنہ۔ وکان قتلہ أول الفرقۃ، وأول الاختلاف، فتحاربت الأمۃ، وتفرقت، واتبعت الطمع والأہوئ۔ والمیل إلی الدنیا، فلیس لأحد رخصۃ في شيئٍ أحدثہ مما لم یکن علیہ أصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم، أو یکون [رجل] یدعوا إلی شيئٍ أحدثہ من قبلہ من أہل البدع، فہو کمن أحدثہ، فمن زعم ذلک أو قال بہ، فقد رد السنۃ وخالف [ الحق و] الجماعۃ، وأباح البدع، وہو أضر علی ہذہ الأمۃ من إبلیس۔))
’’جان لیجیے کہ دین عتیق(پرانا دین) وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے وقت تک تھا۔ آپ کا قتل ہونا پہلی فرقہ بندی اور پہلا اختلاف تھا۔ اس کے بعد امت آپس میں لڑپڑی، اور گروہوں میں بٹ گئی اور خواہشات اور طمع کی پیروی کرنے لگے۔اور دنیا کی طرف مائل ہوگئے۔ کسی ایک کے لیے اس کی ایجاد کردہ بدعت کی رخصت نہیں ہو، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے