کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 401
دین کو لازم کر لو۔‘‘[1]
شرح: …یہاں سے مصنف رحمہ اللہ اہل سنت کی ایک خاص امتیازی بات کی تعلیم دے رہے ہیں، کہ جو کوئی علم و عمل(اورمناظرہ وہ مجادلہ) میں اپنے آپ کو کتاب و سنت تک ہی محدود رکھے اور متقدمین اہل ایمان صحابہ کرام کے منہج اور فہم کو اپنے اوپر لازم کرلے،(اجماع امت کی مخالفت نہ کرے)، یعنی قرآن و سنت کے دلائل ہی پیش کرے، تو اس کی حجت(دلیل)خوب مضبوط ہے، اورایسا انسان اپنے فریق ِ مخالف پر کامیابی پا لے گا، او رحق اسی کے ساتھ ہو گا۔اگرچہ اس کے مخالفت تعداد میں بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔یہی سلف ِصالحین کا طریق کار تھا کہ اپنے فریق مخالف پر قرآن و سنت سے حجت قائم کردیتے تھے، اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے تھے-کہ فلسفہ، کلام اور منطق کی باتیں پیش کریں-۔ یہی سلامتی کا منہج ہے۔
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(اس نے اپنے بدن کو آرام دیا، اور اپنے دین کو محفوظ کرلیا):
مراد یہ ہے کہ خواہ مخواہ کی بدعات کی وجہ سے اپنے آپ کو تکلیف نہیں دی اور یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ سنت پر عمل کرکے اپنے بدن کو آخرت کے عذاب سے بچالیا، اور اسے آرام پہنچایا اوراپنے دین کو محفوظ کرلیا، اور اس میں بدعات اور شرک کو داخل نہیں کیا۔
یہ حدیث: ستفترق أمتي: اس میں پھوٹ پڑنے کی خبر تحذیر او رڈراوے کے طور پر دی گئی ہے اور مسلمانوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ ان اسباب سے بچ کر رہیں، جن سے اختلاف پیداہواور اگر اختلاف پیدا ہوجائے تو پھر مخالفین کی کثرت اور ان کے جاہ و جلال سے مرعوب نہ ہوں، بلکہ حق کا ساتھ دیں اور قرآن و سنت پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں۔
مصنف رحمہ اللہ کافرمان:(یہی شفاء اور بیان ہے واضح امراور روشن منارہ ہے…):
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کوبیان اور تفصیل کا محتاج نہیں چھوڑا، دین کے تمام امور کو واضح کردیا، اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی خبر بھی دے دی۔ اس امت کی خیر خواہی کاپورا پوراحق ادا کردیا۔ اب ہم پر لازم ہے کہ ہم کتاب و سنت کوہی اپنے لیے ذریعہ نجات سمجھتے ہوئے ان پر عمل کریں۔
مصنف رحمہ اللہ کافرمان:(اپنے آپ کو تعمق(گہرائی میں جانے) سے بچاؤ …):
یہاں تعمق سے مراد غلو اور تشدد ہے۔جیسا کہ جاہل صوفیاء کا طریقہ کار ہے، سارا سارا سال روزے رکھتے ہیں، پوری پوری رات عبادت کرتے ہیں۔ شادی نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ سب سنت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے تھے اور سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے۔ مگر آپ روزہ بھی رکھتے، او رافطار بھی
[1] یہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے، مرفوع حدیث نہیں ہے۔ اسے امام عبد الرزاق صنعانی نے اپنی ’’ مصنف‘‘ (10/252) میں روایت کیا ہے، اور دارمی (1/50)، ابن نصر المروزی ’’السنۃ‘‘(85) طبرانی نے الکبیر میں(9/189) اور لالکائی نے ’’السنۃ‘‘(108) میں، اور بیہقی نے ’’المدخل‘‘ (387-388) میں، اور ابن عبد البر نے ’’جامع بیان العلم‘‘ میں (1/152) میں، اور خطیب نے ’’الفقہ و المتفقہ‘‘ میں (1/43) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ٭ الشریعۃ ص 48، ح: 69، 72، ص: 51: مقدمۃ، ح:75۔