کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 400
﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَo﴾(النحل: 44) ’’ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو(ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کر دو اور تاکہ وہ غور کریں۔‘‘(وضاحت کے لیے دیکھو: پیرایہ 71) اور پھر اس کے بعد خلفاء راشدین کی سنت۔انہیں جماعت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہر زمانے کے لوگ جب حق پر جمع ہوجائیں تو وہ جماعت کہلاتے ہیں اور پھر ان کے بعد آنے والے جو لوگ ان کی راہ پر چلتے رہے وہ بھی جماعت کہلاتے ہیں۔ منہج صحابہ راہِ نجات ہے 107 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((ومن اقتصر علی سنۃ رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم وما کان علیہ [أصحابہ و] و الجماعۃ، فلج أہل البدع کلہا، واستراح بدنہ وسلم لہ دینہ،-إن شاء اللّٰه-، لأن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم قال:’’ ستفترق أمتي۔‘‘ وبیّن لنا رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم الناجي منہا، فقال: ’’’’ما کنت أنا علیہ الیوم وأصحابي۔‘‘فہذا ہو الشفاء والبیان، والأمر الواضح، والمنار المستنیر، وقال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم: إیّاکم و التعمق، وإیّاکم و التنطع، وعلیکم بدینکم العتیق۔‘‘)) ’’جس نے خود کو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اور اس چیز تک محدود رکھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا اجتماع و اتفاق ہو، وہ تمام اہل بدعت پر کامیاب ہوگیا۔ اس نے اپنے بدن کو آرام دیا، اور اپنے دین کو محفوظ کرلیا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ-۔چونکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ستفترق أمتي۔‘‘ ’’ عنقریب میری امت گروہ بندی کا شکار ہوجائے گی۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی وضاح کردیا ہے کہ ان میں سے نجات پانے والا فرقہ کون سا ہو گا،سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ما کنت أنا علیہ الیوم وأصحابي۔‘‘ ’’اس راہ پر چلنے والے ہوں گے، جس پر آج کے دن میں اور میرے صحابہ ہیں۔‘‘ یہی شفاء اور بیان ہے، اور واضح امراور روشن منارہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے آپ کو تعمق(گہرائی میں جانے) سے بچاؤ، اور اپنے آپ کو تشدد سے بچاؤ، اپنے آپ پر اس پرانے
[1] اس کی تخریج گزر چکی ہے ۔پیرایہ نمبر 95۔