کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 399
اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اُس کی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو ہو جاتے۔‘‘
اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ فَاسْأَلُوْا أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾(النحل: 43)
’’اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل ِ کتاب سے پوچھ لو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ِعلم کی اہمیت اوران کا منصب بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((المجتہد إذا أخطأ فلہ أجر، وإن أصاب فلہ أجران))
’’ مجتہد سے جب اجتہاد میں غلطی ہو جائے تو اس کے لیے ایک اجر، اور جب وہ صحیح نتیجہ اخذ کرلے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔‘‘ متفق علیہ۔
سنت ہی حق ہے
106 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((والحق ما جاء من عند اللّٰه [عزو جل ]، والسنۃ: سنۃ رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم، والجماعۃ: ما اجتمع علیہ أصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم في خلافۃ أبي بکر و عمر [وعثمان-رضی اللّٰه عنہم-]۔))
’’اور حق وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہو، یا سنت ہو، یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، اور جماعت: یعنی جس پر اصحاب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتفاق ہو، حضرت ابو بکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں۔‘‘
شرح: … حق اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے اورپھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔ جوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اقوال، اعمال وافعال اور تقاریر پر مشتمل ہے۔سنت نبوی بھی وحی ہوتی ہے، مگر اس کی تلاوت نہیں کی جاتی، عمل وعقیدہ میں ان دونوں(یعنی قرآن و حدیث) میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے(امورِ شریعت میں)بات تک نہیں کرتے، آپ جو کچھ فرماتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتا ہے، ارشاد ربانی ہے:
﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰیo﴾(النجم: 3۔ 4)
’’اورنہ(اپنے دل کی) خواہش سے وہ(کوئی) بات کرتا ہے۔اس کی جو بات ہے و ہ وحی ہے جو(اس پر بھیجی جاتی ہے۔
قرآن کو پہلی وحی کہا جاتا ہے اور سنت کو دوسری وحی، اور یہی دوسری وحی قرآن کی تفسیر اور بیان پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: