کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 398
ہوں بھلے وہ عوام ہی کیوں نہ ہوں، ان کا شمار اہل ِ سنت میں ہی ہوگا۔ اصولِ دین میں قیاس اصول دین سے مراد عقیدہ کے مسائل ہیں، جن میں قیاس نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ عقیدہ کے امور وحی سے براہ راست نازل ہوتے ہیں، اوران میں قرآن و سنت کی نصوص پر ہی توقف کیا جائے گا۔ 105 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((واعلم-رحمک اللّٰه-: أن من قال في دین اللّٰه برأیہ وقیاسہ، و تأویلہ من غیر حجۃ من السنۃ والجماعۃ، فقد قال علی اللّٰه ما لا یعلم۔ومن قال علی اللّٰه ما لا یعلم، فہو من المتکلفین۔)) ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے: جان لیجیے کہ جس نے اللہ کے دین میں اپنی رائے اور تأویل سے یا قیاس سے کہا، بغیر سنت و جماعت سے دلیل لیے بغیر کوئی بات کہی، یقیناً اس نے اللہ تعالیٰ پر بغیر علم کے بات کہی۔ اور جس نے اللہ تعالیٰ پر بغیر علم کے بات کہی وہ متکلفین میں سے ہے۔‘‘ شرح: … دین رائے زنی کا نام نہیں بلکہ اتباع کتاب و سنت دین ہے۔یہاں پر مصنف رحمہ اللہ اہل بدعت اور گمراہ فرقوں کے منہج کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہ دین میں اپنی من مانی کرتے ہیں۔اور اپنی رائے اور قیاس سے مسائل گھڑنے لگے۔ یہاں مراد عقیدہ میں قیاس کرنا ہے جو کہ توقیفی امر ہے، اور غیب سے تعلق رکھتا ہے، جس میں قیاس شرعاً ممنوع ہے۔ یہی اہل ھواء کا منہج ہے۔ کہ وہ عقیدہ کے امور کو عقلی اوہام و خرافات پر قیاس کرتے ہیں اوراس کے نتیجہ میں خود بھی گمراہ ہوتے ہیں، اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِآیَاتِہِ﴾(الاعراف: 37) ’’اُس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اُس کی آیتوں کو جھٹلائے۔‘‘ جب کہ شرعی مسائل میں حق بات معلوم کرنے اور دین کو سمجھنے کے لیے علماء سے رجوع کرنا، اور ان علمائے کرام کاقرآن و سنت کی نصوص اور اجماع امت سے مسائل کا استنباط کرنا،اور پیش آمدہ مسائل کو سابقہ مسائل کی علت پر قیاس کرنا نہ صرف محموداورماجوربہ ہے، بلکہ اس کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَإِذَا جَاء ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوْا بِہِ وَلَوْ رَدُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطَانَ إِلَّا قَلِیْلًاo﴾(النساء: 83) ’’اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اُسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر اُس کو پیغمبر اور