کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 396
ایسے حالات میں لوگوں کو دعوت حق دیں تو بدعات اور خرافیات اور اہل بدعت کو ایسے بڑھا کر نہ پیش کریں جس سے ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں۔ بلکہ چاہیے کہ حقیقت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر یقین اور امید دلائیں کہ آخر کار حق ہی غالب آکر رہے گا، اور اللہ تعالیٰ نے حق کی نصرت و مدد کا وعدہ کررکھا ہے اور اہل حق کبھی بھی ذلیل ورسوا نہیں ہوں گے۔ رسوائی بدعت اہل بدعت کا ہی مقدر بنے گی۔اگر حق و سنت کی نشرو اشاعت میں اگر ان کی موت بھی آگئی تو ان شاء اللہ اللہ کی راہ میں شہید ہوں گے اور قیامت میں اس عظیم ہستی کی ہمراہی میں ہوں گے جس کی سنت کی نشر و اشاعت اور سنت کی حفاظت میں اپنی جان بھی دے دی۔ لہٰذا اہل ِ بدعت کے غلبہ اور زور سے انسان کو کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے، آخر کار فتح حق کی ہی ہوگی۔ اور لوگوں کا بھی ایک ایسا گروہ موجود رہے گا جن سے اللہ تعالیٰ اس دین کی خدمت کا کام لے گا، وہ خود بھی ہدایت پر ہوں گے، اور اللہ ان کے ذریعہ سے دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت دے گا۔ یہی اللہ والے علماء راسخین کی صفت ہے۔ وہ ہمیشہ لوگوں کے لیے خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں، اور لوگوں کو خیر و بھلائی کی دعوت دیتے ہیں، اور برائی سے منع کرتے ہیں، اور ان پر حق بات کو واضح کرتے ہیں۔سنت کو زندہ رکھتے ہیں اوربدعات کا قلع قمع کرتے ہیں۔ اس کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ آج تک اہل اسلام پر کتنے مشکل ترین دور آئے مگر پھر بھی یہ دین قائم ہے، اور ہمیشہ ہمیشہ ایسے رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان لوگوں میں سے بنادے جو حق پر قائم اور اس کی دعوت دینے والے ہیں۔ حقیقی علم کیا ہے؟ 104۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((واعلم-رحمک اللّٰه-: أن العلم لیس بکثرۃ الروایۃ [ والکتب]، إنما العالم من اتبع العلم والسنن۔ وإن کان قلیل العلم [والکتب]، ومن خالف الکتاب والسنۃ، فہو صاحب بدعۃ، و إن کان کثیر العلم [ و الکتب]۔)) ’’اور اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے ! جان لیجیے کہ: ’’ علم کتب اور روایات کی کثرت کا نام نہیں ہے۔ بیشک عالم وہ ہے جو علم اور سنت کی پیروی کرے۔ اگرچہ اس کے پاس کم علم اور کم کتب ہی کیوں نہ ہوں اور جس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی وہ بدعتی ہے۔ اگرچہ اس کے پاس بہت سارا اور ڈھیر ساری کتابیں ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ شرح: … علم کثرت ِ روایت یا مطالعہ کا نام نہیں، نہ ہی بہت زیادہ کتابیں ہونے سے علم آجاتا ہے۔ بلکہ علم دین کو سمجھنے او راس کی اتباع کرنے کا نام ہے۔ بھلے علم کم ہی کیوں نہ ہو۔علم بہت ہو، مگر علم نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ ایسا علم انسان پر حجت ہے، شاعر کہتا ہے: علم را گر دل زنی یارے بود علم را گر تن زنی مارے بود