کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 392
بَعْدِ مَا جَائَ ہُمْ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْنَہُم﴾۔[جاثیہ 17] و ہم علماء السوء وأصحاب الطمع والبدع۔)) اور جان لیجیے کہ: ہر گزکوئی زندیقیت نہیں آتی، مگر گنوار چرواہے قسم کے لوگوں سے جو ہر آواز کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ ہر ہوا کے ساتھ جھونکے کھانے والے۔ جس کا یہ عالم ہو، اس کا کوئی دین نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَائَ ہُمْ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْنَہُم﴾ ’’ تو انہوں نے جو اختلاف کیا تو علم آچکنے کے بعد آپس کی ضد سے کیا۔‘‘ اور فرمایا:’’(اور یہ اختلاف انہوں نے صرف) آپس کی ضد سے(کیا) تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے۔‘‘یہی علماء سوء ہیں۔اور اصحاب بدعت و طمع۔ شرح: … زندیقیت منافقت ہے۔ اس سے مراد ہے ایمان ظاہر کرکے کفر کو پوشیدہ رکھنا۔شروع اسلام میں زندیقوں کو ہی منافقین کہا جاتا تھا۔یہ عام لوگوں کے درمیان رہتے تھے۔ مگر جب کبھی بھی ان کو موقع ملتا تو اپنے ناخن ظاہر کرتے، اور اہل ِ حق کو تکلیف پہنچاتے۔ علم کا خاتمہ کیسے ہوگا ؟ گنوار چرواہے سے مصنف کی مراد ایسے لوگ جونہ ہی دین کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہی سمجھ۔ ہر دور کے مبتدعین کا یہی حال رہا ہے۔ یہ لوگ علماء راسخین اور فقہاء مجتہدین کے ذریعہ سے اپنی بدعات کو تو داخل نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے عوام اور جاہل طبقہ کے لوگوں کو اپنی خواہشات کا نشانہ بنانا شروع کیا۔اصلاح اور خیر کے نام پر سادہ عوام کو اپنے ساتھ ملالیا۔ یہی علماء سوء کا ہر دور میں کردار رہا ہے۔ اس کی بشارت پہلے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إن اللّٰه لا یقبض العلم إنتزاعاً ینتزعہ من العباد، ولٰکن یقبض العلم بقبض العلماء، حتی إذا لم یبق عالماً اتخذوا الناس رؤوساً جہالًا، فَسُئِلوا، فأَفتوا بغیر علم، فضلوا و أضلوا۔))[1] ’’ بیشک اللہ تعالیٰ علم ایسے نہیں اٹھائیں گے کہ لوگوں کے دلوں سے چھین لیں۔لیکن اس طرح اٹھائیں گے کہ علماء کو اٹھالیں گے۔یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ اپنے سردار جاہلوں کو بنالیں گے۔ ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
[1] رواہ البخاری، باب: کیف یقبض العلم، ح: 100۔ومسلم، باب: رفع العلم وقبضہ و ظہور الجہل، 6971۔