کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 389
کے لحاظ سے حدیث کی بھی وہی اہمیت ہے جو قرآن کی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًاo اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًاo﴾(النساء: 150۔151)
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبروں کو نہیں مانتے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبروں میں جدائی ڈالنا چاہتے ہیں(مثلًا خدا کو مانتے ہیں اور پیغمبروں کو نہیں مانتے) اور کہتے ہیں ہم بعضے پیغمبروں کو مانیں گے بعضوں کو نہیں مانیں گے اور(کفرو ایمان کے) بیچ میں ایک رستہ بنایا چاہتے ہیں۔یہی لوگ کٹے(پکے) کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
گیارھویں وجہ:
’’ منسوخ چیزوں کو پیش کرنے لگے۔‘‘
ان لوگوں نے اپنی گمراہیوں کو ہوا دینے کے لیے یا توقرآنی آیات میں تاویلات کی ہیں، یا پھر احادیث صحیحہ کا انکار کیا، یا ان کے مقابلہ میں منسوخ آیات و احادیث پیش کرکے اپنے دل کو تسلی دیتے رہے اوران احکام سے روگردانی کی جن پر تمام امت کے علماء کا اتفاق و اجماع تھا۔ یہ لوگ انانیت کی شکار ہونے کی وجہ سے حق بات واضح ہونے کے باوجود بھی اپنے مؤقف سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے، چونکہ ان کا اصل مقصد ہدایت کی تلاش نہیں، بلکہ گمراہی پھیلانا اور عوام کو تشویش میں مبتلا کرنا ہے۔ لہٰذا انہیں دلیل کی حقیقت اور طریقہ ء استدلال سے کوئی سرو کار نہیں۔
بارھویں وجہ:
’’متشابہ سے حجت پیش کرنے لگے‘‘۔
کھلے ہوئے احکام چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے چل پڑے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے ہی ایسا کرنے کو کجی اور گمراہی سے تعبیر کیا تھا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَۃَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِo﴾(آل عمران: 7)
’’اسی نے تجھ پر یہ کتاب اتاری(یعنی قرآن شریف) اس میں سے بعض آیتیں کھلی صاف مضمون کی ہیں وہ تو قرآن شریف کی جڑ ہیں(جن کو محکم کہتے ہیں) اور بعض آیتیں متشابہ مضمون کی ہیں(کئی پہلو رکھتی ہیں) پھر جن کے دل پھرے ہوئے ہیں(یعنی کج ہیں باطل کی طرف جھکے ہوئے) وہ لوگوں کو گمراہ کرنے اور اصلی