کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 388
کے کفر کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے مسلمان حکمرانوں سے جنگیں لڑیں، اورانہیں داخلی طور پر کمزور کیا۔اور ان پر حملہ کرنے میں غیروں کا ساتھ دیتے رہے۔ مناظروں اورجدا ل کے ذریعہ سے لوگوں میں دین سے نفرت پیدا کی جو دین کے کمزور ہونے کاسبب بنی۔ لوگوں کو آپس میں لڑا کر جہاد سے موڑ لیا، جس کی وجہ سے اسلامی سرحدوں کی حفاظت میں کمزوری آنے لگی۔ زمین میں خوب فساد پھیلایا، لوگوں کوناحق قتل کیا۔ خصوصاً اہل سنت و الجماعت کے علمائے کرام کا قتل عام کیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ناحق خون بہانے اور زمین میں فساد پھیلانے سے منع کیا ہے۔ آٹھویں وجہ: ’’جہاد کو معطل کیا۔‘‘ اسلام جو کہ اسلام کی کوہان ہے، اور اسی سے اسلامی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ممکن ہے۔جہاد سنت انبیاء اور سلف ِ صالحین کا شیوہ ہے، مگر ان لوگوں نے جہاد کا یا تو سرے سے انکار کردیا، یا پھر اس میں باطل تأویلیں کرنے لگے۔ اس لیے کہ یہ لوگ کافروں کو کافر کہنا جائز نہیں سمجھتے، اسی بنا پر ان کے خلاف جہاد بھی نہیں کرتے، بلکہ آیات ِجہاد کو مجادلہ و مناظرہ میں تأویل کرنے لگے۔ دشمن کے بجائے مسلمانوں سے لڑنے لگے۔ قتل و غارت گری مچائی۔ اس لیے پوری اسلامی تاریخ میں دنیا بھر میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی کہ رافضیوں یا خوارج نے کبھی بھی کفار یا مشرکین سے ایک معرکہ بھی لڑا ہو۔بلکہ انہوں نے اپنے خبیث عقیدہ کو چھپا کر اہل سنت و الجماعت کی صفوں میں گھس کر ہمیشہ اسلامی حکومتوں کو نقصان پہنچایا، اور بڑی بڑی اسلامی حکومتیں ان کی وجہ سے ختم ہوئیں۔ نویں وجہ: ’’اور(امت میں) تفریق پیدا کی۔‘‘ قرآن و سنت سے ثابت صحیح نصوص اور دلائل کی مخالفت کرنے لگے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے گروہ بندی پیدا کرنے اور تفرقہ بازی مچانے سے منع کیا تھا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَمُ وَکَانُوْ اشِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْئٍ اِنَّمَآ اَمْرُہُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَo﴾(الانعام: 159) ’’(قیامت ہی میں ہمارا تمھارا فیصلہ ہوجائے گا) جن لوگوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور کئی فرقے بن گئے تجھ کو ان سے کچھ غرض نہیں ان کا کام اللہ کے حوالے ہے بس وہی ان کو جتائے گا جو وہ(دنیا میں کرتے رہے)۔‘‘ دسویں وجہ: ’’ احادیث کی مخالفت کرنے لگے۔‘‘حالانکہ حدیث بھی اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے۔ اس میں اور قرآن کے الفاظ میں اتنا فرق ہے کہ قرآن کے الفاظ پڑھنے پر جو اجر ملتا ہے، احادیث کے الفاظ پڑھنے پر وہ اجر نہیں ملتا۔ مگر اتباع