کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 384
ہیں، اور اپنے بارے میں نہ جانتا کہ وہ حق پر ہے یا باطل پر۔سو اس طرح وہ شک کرنے والوں میں سے ہوگیا، سو یوں مخلوق ہلاک ہوئی۔ یہاں تک کہ(خلیفہ)جعفر کے ایا م آگئے، جسے متوکل[1] کہا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ بدعات کو ختم کیا، اورحق ظاہر ہو ااور اہل سنت غالب آگئے اور ان کی زبانیں کھلنے لگیں۔ باوجود کہ اہل سنت قلت میں تھے اور اہل بدعت ہمارے آج کے دن تک کثرت میں ہیں۔ ان گمراہی کی رسومات اور اعلام میں سے ایسے امور باقی ہیں جن پر ایک قوم آج تک عمل کررہی ہے اور اس کی دعوت بھی پیش کررہے ہیں۔نہ ہی کوئی چیز ایسی رکاوٹ بنتی ہے کہ یہ اپنی اس دعوت سے باز آئیں، اور کوئی روکنے والا انہیں ان کے قول اور عمل سے روک نہیں رہا۔
شرح: … مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(’’ جہمی کافر ہے ‘‘وہ اہل قبلہ میں سے نہیں ہے…):
یعنی اپنے اس کلام اور عقیدہ کی وجہ سے کافر ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کاانکار کیا، اور اللہ کے بارے میں اپنی طرف سے باتیں گھڑنے لگے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کرنے کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا بھی انکار کیا جائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے جہمیہ کے رد پر ایک کتاب لکھی ہے:(الرد علی الجہمیۃ)۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی ان پر بہت زبردست رد لکھا ہے، ان کی کتاب کا نام ہے:(بیان تلبیس الجہمیۃ)۔
امام احمد بن حنبل علماء رحمہم اللہ کا فرمان کہ: ’’ جہمی کافر ہے۔‘‘اس سے مراد خاص جہمی فرقہ ہے جو کہ قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ان کا خون حلال ہے، اوروہ اگر وہ مرجائیں تو ان کا مال وراثت میں تقسیم نہیں ھوگا، او راگر ان کا کوئی رشتہ دار مر جائے تو انہیں وراثت نہیں ملے گی۔
جہمیہ کے کافر ہونے کی وجوہات
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(اس لیے کہ وہ کہتے ہیں): اس پورے پیرایہ(نمبر 101) میں مصنف رحمہ اللہ نے جہمیہ فرقہ کے سترہ(17) أصول ذکر کیے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے امتیازی امور بیان کیے ہیں اور مذکورہ قواعد میں جہمیہ اور معتزلہ اپنے ابتدائی دور میں بالکل مشترک تھے،ان کے اصول اور قواعد بالکل یکساں تھے۔پھر انہی اصولوں اور قواعد پر رافضہ اور خوارج نے اپنے اپنے مذاہب کی بنیادیں کھڑی کیں۔ اس جملہ سے مصنف رحمہ اللہ نے جہمیہ فرقہ کے کافر ہونے کی علتیں اور وجوہات بیان کرنا شروع کی ہیں:
پہلی وجہ:
وہ کہتے ہیں: ’’ جمعہ اور جماعت واجب نہیں ہے۔‘‘صفوان بن جہم جمعہ کی نماز اور جماعت کا انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:’’ ان کے لیے صرف اللہ کی معرفت ہی کافی ہے، ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ ان کے ہاں جب
[1] عباسی خلیفہ متوکل علی اللّٰه، أبو الفضل جعفر بن المعتم باللّٰه بن محمد ابن الرشید ہارون، بن المہدی بن المنصور القرشی العباسی البغدادی متوفی (247ھ)۔ اس کے حالات زندگی جاننے کے لیے دیکھیں:’’ سیر أعلام النبلائ‘‘(12/ 30)، اور ’’ الشذرات ‘‘ (2/ 114)۔