کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 383
بعض علمائے کرام-ان میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی ہیں-فرماتے ہیں:
’’ جہمی کافر ہے ‘‘وہ اہل قبلہ میں سے نہیں ہے اس کا خون حلال ہے۔ نہ ہی وہ وراثت پائے گا، اور نہ ہی اس کی وراثت تقسیم ہوگی۔ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں:’’ جمعہ اور جماعت واجب نہیں ہے اور نہ ہی عیدین کی نماز ہے اور نہ ہی صدقہ ہے۔اور انہوں [جہمیہ ]نے یہ بات بھی کہی ہے کہ: ’’ جو یہ بات نہیں کہتا کہ قرآن مخلوق ہے، وہ کافر ہے۔ ا نہوں نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں کا قتل کرنا حلال قرار دیا، اور اپنے سے پہلے لوگوں کی مخالفت کرنے لگے اور لوگوں کو ایسی چیز کے بارے میں امتحان میں ڈال دیا جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ انہوں نے(عام) مساجد او رجامع(مساجد) کو بندکرنے کا ارادہ کیا۔ اسلام کو کمزور کیا،جہاد کو معطل کیا، اور(امت میں) تفریق پیدا کی۔ احادیث کی مخالفت کرنے لگے اور منسوخ چیزوں کو پیش کرنے لگے اور متشابہ سے حجت پیش کرنے لگے[1]۔ لوگوں کو ان کی آراء اور دین میں شک میں ڈالنے لگے اور اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کرنے لگے اور کہنے لگے:’’ عذاب قبر نہیں ہے[2]، اور نہ ہی کوئی حوض اور کوثر ہے، نہ ہی شفاعت[3]۔ جنت اور جہنم پیدا نہیں کیے گئے [4]اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے فرامین کا انکار کرنے لگے۔ اس بات پر بہت سے لوگوں نے ان کا خون حلال قرار دیا۔[5] اس لیے کہ جس نے کتاب اللہ کی ایک آیت کا انکار کیا، اس نے تما م کتاب کا انکار کیا اور جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا انکار کیا، اس نے تمام حدیثوں کا انکار کیا۔ ایسا انسان اللہ بزرگ و برتر کے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔ ایسے لوگوں کو بہت بڑا عرصہ-اپنے نظریات پھیلانے کے لیے-موقع مل گیا، اور حکمرانوں نے ان نظریات کی اشاعت میں ان کا ساتھ دیا۔انہوں نے تلوار اور کوڑے کے زور پر لوگوں میں یہ دعوت پھیلائی۔ پس اس وجہ سے سنت و جماعت کا علم کمزور ہوگیا۔ بدعت اور علم کلام کے غلبہ اور کثرت کی وجہ سے یہ دونوں علم-کتاب و سنت-چھپ کر رہ گئے۔ یہ لوگ مجلسیں لگا کر اپنے نظریات کی اشاعت کرنے لگے۔ اس مسئلہ میں کتابیں لکھیں اور لوگوں کو اس میں لالچ دینے لگے اور عہدے طلب کرنے لگے۔یہ ایک بہت ہی بڑا فتنہ تھا۔ اس سے کوئی بھی نہیں بچ سکا سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ رکھا ہو۔ ان کی مجلس سے سب سے کم جس پر اثر ہوتا تھا وہ یہ کہ وہ اپنے دین میں شک کرنے لگتا، یا ان کی اتباع کرنے لگا، یا کم از کم اس کا یہ گمان ہوجاتا کہ یہ لوگ حق پر
[1] متشابہ پر رد گزر بھی چکا اور کچھ آگے آرہا ہے ۔
[2] اس پر رد پہلے گزر چکا ہے اور عذاب ِ قبر اور اس کی نعمتوں، سوال و جواب کی تفصیل، اور حیات ِ برزخ کا بیان گزر چکاہے ۔
[3] اس پر رد پہلے گزر چکا ہے اور مطلق شفاعت کے برحق ہونے، شفاعت کی اقسام اور شفاعت قہری کی نفی کے تفصیلی دلائل گزر چکے ۔
[4] اس پر رد پہلے گزر چکا ہے اور جنت و جہنم کی تخلیق کے تفصیلی دلائل گزر چکے ۔
[5] دیکھو: ’’ السنۃ‘‘ ازعبد اللہ - بن احمدبن حنبل - (1/102-103)۔ ’’ الرد علی الجہمیۃ‘‘ للدارمی (ص 171)۔