کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 381
دوسري چیز: جب انہوں اللہ تعالیٰ کی قدرت او راس کی مخلوقات میں تدبر و تفکر ترک کے اللہ تعالیٰ کی ذات میں اپنے عقل سے غور وفکر شروع کیا تو ان پر شبہات بھی وارد ہونے لگے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے کیوں کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اس صفت سے موصوف کیوں بتایا ؟اور اس طرح کے دیگر سینکڑوں شکوک و شبہات صرف منہج ِ حق سے ہٹ جانے کے نتیجہ میں پیدا ہوئے۔ تیسري چیز: جب ان کے دل میں یہ شبہات پیدا ہوئے، تو ان کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے آثار-یعنی قرآن و حدیث اور صحابہ کرام اور تابعین عظام کے اقوال اور منہج-سے ہٹ کر اس کا حل تلاش کرنا شروع کیا۔ چوتھي چیز: جب ذات باری تعالیٰ اور اس کے اسماء و صفات میں عقلی دخل اندازی کے نتیجہ میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے، جن کے حل کے لیے انہوں نے قرآن و سنت کی طرف رجوع نہ کیا، تووہ اس بات پر مجبور ہوگئے کہ اپنی طرف سے قیاس کریں اور تخمینہ لگائیں۔ غائب کو شاہد پر قیاس کریں۔مثال کے طور پراللہ تعالیٰ کے بارے میں قیاس کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ سوائے جسم کے کوئی چیز موجود نہیں ہوسکتی اور جسم کا وجود اجزاء ترکیبی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور جو چیزاجزاء سے مرکب ہو، اسے اپنے اجزاء کی حاجت و ضرورت رہتی ہے۔اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے ساتھ مناسب نہیں ہے کہ وہ ضرورت مند ہو۔اس بناپر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال کی نفی کی اور دین-عقیدہ-کو اپنی رائے سے قیاس کیا۔ پانچویں چیز: اس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہوئے کفر کے مرتکب ہوئے اور کہنے لگے: اللہ تعالیٰ کا وجود صرف ذہنی ہے، اور کبھی کہا فقط عقلی وجود ہے، اورکبھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود مطلق اورمجرد ہے۔ چھٹي چیز: جب اس عقیدہ میں انہوں نے پوری امت کو چھوڑ کر اپنی علیحدہ سے رائے قائم کرلی، اور اپنی رائے کے مخالفین کو کافر کہنے لگے، یوں مخالفین کو کافر کہنا اور کافر سمجھنا ان کے عقیدہ کی بنیادبن گیا۔ ساتویں چیز: کہ صفات الٰہیہ کو مطلق طور پر معطل قرار دینے لگے۔ یوں وہ اپنے باطل قیاس اور خودساختہ کلام کی وجہ سے جان بوجھ کر ہدایت کے بدلے گمراہی پر اڑگئے، اور کفر کے مرتکب ہوئے۔ جب وہ خود کفر کا شکار ہوگئے تو اپنے دفاع کے لیے انہوں نے اہل سنت والجماعت(اللہ تعالیٰ کے لیے اسماء و صفات ثابت ماننے والوں)کو کافر کہنا شروع کردیا۔ آخر کار معاملہ یہاں تک پہنچا کہ یہ لوگ ملحد او رزندیق ہو کر دین سے خارج ہوگئے۔ چونکہ جب انہوں نے یہ ایمان و عقیدہ بنالیا کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نہ ہی سنتا ہے، نہ ہی دیکھتا ہے، نہ ہی اس کا کوئی ارادہ ہے، نہ ہی وہ کلام کرتا ہے، نہ ہی اس کی کوئی چاہت(مشیت)ہے، نہ ہی وہ عالم(کائنات)کے داخل میں نہ ہے، نہ ہی اس سے خارج ہے، نہ ہی آسمان کے اوپر ہے، نہ ہی زمین کے نیچے ہے، تو پھر وہ ہے کیا ؟ او رہے کہاں پر ؟ آخر کار ان ہی اشکالات اور ابہامات کی وجہ سے کافر ہوئے۔