کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 380
ان اختلافات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے دے رکھی تھی، کہ: میری امت تہتر گروہوں میں بٹ جائے گی، سارے کے سارے جہنمی ہوں گے، سوائے ایک اس گروہ کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے منہج اور عقیدہ پر قائم رہے گا۔‘‘جیساکہ مذکورہ بالا حدیث میں گزر چکا۔ یہ گروہ اہل ِ سنت و الجماعت کا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر قائم رکھے۔ آمین۔ جہمیہ کی ہلاکت کے اسباب 100۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((واعلم أنَّہ إنما جاء ہلاک الجہمیۃ: أنہم [فکروا] في الرب [عزو جل ] فأدخلوا: لمَ ؟ و کیفَ ؟وترکوا الأثر ووضعوا القیاس، وقاسوا الدین علی رأیہم۔ فجاؤوا بالکفر عیاناً، لا یخفی أنہ کفر، وأکفروا الخلق، و اضطرہم الأمر حتی قالوا بالتعطیل۔)) ’’اور یہ بات جان لیجیے کہ جہمیہ کی ہلاکت کیسے واقع ہوئی؟، بیشک انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور کیوں ؟اور کیسے ؟ کو اس میں داخل کیا۔ انہوں نے حدیث کی اتباع کو چھوڑ دیا، اور قیاس گھڑ لیا، اور دین کو اپنی رائے پر قیاس کرنے لگے۔ او روہ دیکھتی آنکھوں کھلا کفر لے کر آئے، ان پرپوشیدہ نہیں تھا کہ یہ کفر ہے اور(پھر الٹا) لوگوں کو کافر کہنے لگے۔ ان معاملات سے مجبور ہو کر آخر میں انہوں نے تعطیل کے قول کو اختیار کرلیا۔‘‘ شرح: … یہاں پر مصنف رحمہ اللہ جہمیہ کے اصول اور ان کی ہلاکت و بربادی کے اسباب بیان کر رہے ہیں۔ جہمیہ کی ہلاکت کے بہت سارے اسباب اوران کے خود ساختہ اصول ہیں۔ کچھ اصولوں میں انہوں نے سنت کی مخالفت کی، اور اس حق کے ساتھ معارضہ کرنے لگے،یہ اصول صرف انہی لوگوں کے ہیں، جن میں سے کچھ کا بیان کیا جارہا ہے: پہلي چیز: کہ وہ اپنی رائے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات، اسماء اور صفات اور افعال میں غور وفکر کرنے لگے۔ اپنی عقلوں سے غیبی امور میں دخل اندازی شروع کی۔ حالانکہ ساری مخلوقات اور بشریت مل کر اللہ تعالیٰ کے غیب کی اطلاع نہیں پاسکتی۔اور نہ ہی کسی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اپنی عقل سے کوئی چیز قیاس کرے۔ بلکہ اس پر واجب ہوتا ہے کہ جو چیز بھی وحی کے ذریعہ سے اس تک پہنچ جائے اس پر کامل ایمان رکھے۔کیونکہ بشری عقل اللہ تعالیٰ کے بارے میں کوئی بھی قیاس کرنے سے قاصر ہے، فرمان الٰہی ہے: ﴿یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عَلْمًا﴾(طہ: 110) ’’وہ(سب) جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور لوگوں کا علم اس گھیر نہیں سکتا ہے۔‘‘