کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 379
ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے: ﴿قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًاo﴾(الکہف: 109) ’’(اے پیغمبر ان لوگوں سے)کہہ دے اگر میرے مالک کی باتیں(علم وحکمت کی اور اس کی قدرت کے عجائبات)لکھنے کے لیے سمندر کی سیاہی ہو۔تو میرے مالک کی باتیں تمام ہونے سے پہلے سمندر تمام ہوجائے۔گو اتنا ہی ایک اور سمندر ہم اس کی مدد کو لائیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے وہ کلمات ہیں جن سے وہ حکم دیتا ہے، منع کرتا ہے، اور کائنات کے امور کی تدبیر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات اتنے ہیں کہ اگر سمندروں کو سیاہی بنادیا جائے، پھر بھی وہ ختم نہ ہونے پائیں۔ اللہ تعالیٰ ازل سے ہی کلام کی صفت سے متصف ہے۔ مگر ہر دور میں یہ کلام مختلف صورتوں میں اس روئے زمین پر نازل ہوتا رہا ہے۔ کبھی وہ تورات کی شکل میں نازل ہوا اور کبھی انجیل اورآخر کار قرآن کی شکل میں۔ عقلی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے لیے کلام کی صفت ثابت ہے، اس لیے کہ کلام صفات ِ کمال میں سے ہے۔ جب کہ اس کا الٹ نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عیب سے بری ہے۔ مگر جہمیہ فرقہ کے لوگ عوام کے دلوں سے قرآن کی قدر کو ختم کرنے کے لیے مختلف قسم کے شکوک و شبہات اڑاتے رہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ پر یا جبریل امین کے دل میں پیدا کیا، اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ ایسے ہی ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی دیگر کئی ایک صفات کی نفی کی۔ یا ان میں باطل تاویل کا شکار ہوئے۔ اس پیرائے میں مصنف رحمہ اللہ اہل ِ سنت کے مشہور اصولوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کررہے ہیں جو کہ قرآن سے متعلق ہے۔کہ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کلام کی صفت سے موصوف ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی شان کے لائق کلام کرتے ہیں اور یہ کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے جو کہ مخلوق نہیں ہے۔ یہ ان عقائد میں سے ہے جن پر سلف ِ امت کا اجماع ہے۔ نصوص قرآن و سنت اور قواعد ِ عقیدہ کا تقاضا بھی یہی ہے۔اس عقیدہ میں مسلمانوں میں سے چند گمراہ فرقوں، جیسے معتزلہ، جہمیہ، باطنیہ، اور اہل کلام کے علاوہ کسی نے بھی اہل ِ سنت کی مخالفت نہیں کی۔ سلف ِ صالحین نے گمراہ فرقوں پر اتمام ِ حجت کرنے کے بعد اس عقیدہ کی وجہ سے کفر کا فتوی لگایا ہے۔ یہاں پر اہل بدعت نے ایک حیلہ نکالا کہ انسان یہ بات کہے کہ:’’ قرآن پڑھنے میں میرے الفاظ مخلوق ہیں۔‘‘ اہل ِ سنت علماء مسئلہ کی اصلیت کو پہچان گئے کہ یہ لوگ اپنے بدعتی عقیدہ کو رواج دینے کے لیے ایسا حیلہ اختیار کررہے ہیں اور یہ جملہ کہہ کر اس میں تاویل کر کے لوگوں کو گمراہی میں ڈالتے ہیں۔ اسی لیے سلف نے ان کے بدعتی ہونے کا فتوی دیا ہے۔‘‘[1]
[1] دیکھو: ’’السنۃ ‘‘ لعبد اللّٰه بن أحمد بن حنبل، (1/163)، و’’مسائل الإمام أحمد ‘‘ لأبي داؤد (ص 765-271)، و ’’مجموع الفتاوی ‘‘لابن تیمیہ رحمہ اللّٰه (12/359-363-373-375) ۔