کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 377
ہے۔ سلف ِ صالحین کا جہمی مذہب کے اصولوں کو رد کرنے پر اتفاق اور اجتماع رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہمیہ کے بعد جتنے بھی فرقے پیدا ہوئے، ان سب کی جڑیں کسی نہ کسی طرح جہمیہ سے ضرور ملتی ہیں۔ اس لیے سلف ِ صالحین نے گمراہ فرقوں پر رد کرنے کے لیے جہمیہ کے اصولوں پر رد کرنے کو بنیاد بنایا تھا۔ ابتدائی دور میں یہ لوگ کھل بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن بنی عباس-خلیفہ مامون-کے دور میں بعض حاکم لوگ ان سے متأثر ہوئے، اور انہوں نے بدعات کو ہوا دینے میں ان کی مدد کی۔ورنہ نصوص کوواضح طور پر رد کرنے کی جرأت جہمیہ اور معتزلہ کے علاوہ کوئی فرقہ نہیں کرسکتا تھااور عقیدہ کے امور میں قیاس بھی ان ہی لوگوں نے شروع کیا، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفین پر کفر کے فتوے لگانے لگے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ عقل اور آزادیء رائے کے دعویدار ہیں، مگر سب سے زیادہ بیوقوف اپنے مخالفین پر کفر کے فتوے لگانے والے بھی یہی ہیں۔بیوقوف اس لیے ہیں کہ انہیں اتنا بھی پتہ نہ چلا کہ جس معاملہ کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کیا، اور آسمانوں سے ان پر کتابیں نازل کیں، اسے عقل سے کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے؟
اسی بنا پر کہ لوگوں کے لیے ایک دروازہ کھول دیا گیا، اور ہر جاہل و غافل کو دینی معاملات میں بغیر علم و معرفت کے باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔یہاں تک کہ ان لوگوں نے گزشتہ علمائے کرام پر کفر کے فتوے لگانے شروع کردیے اور انہیں کہتے ہوئے سنا گیا کہ کوئی ایک کہتا:
’’ احمد بن حنبل بھی آدمی ہے، اور ہم بھی آدمی ہیں۔ وہ بھی مرد تھے، ہی بھی مرد ہیں،(امام) مالک بھی انسان تھے، اور ہم بھی انسان ہیں(تو پھر ہم ان کی بات کیوں مان لیں)۔‘‘
جب انسان اس قدر بیباکی، شیخوخوری او رتکبر و گھمنڈ پر اتر آئے تو اس سے اللہ کی پناہ۔ ایسی باتیں کرکے انہوں نے امت پر اشتباہ پیدا کردیا، اور دین میں بہت بڑا خلل ڈالا۔ یہاں تک کہ ان میں سے کوئی ایک بد بخت اٹھتا کفریہ کلمات بکتا او رکہتا: ’’یہ ان آئمہ کے اقوال ہیں۔‘‘اس طرح لوگ تفرقہ بندی کا شکار ہوکر ہلاکت کے گڑھوں میں گر گئے۔
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(سوائے ان لوگوں کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی راہ پر ثابت قدم رہے …):
یعنی کفر اور گمراہیوں کے اس طوفان کا شکار ہونے سے وہی لوگ بچ سکے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی راہ پر ثابت قدم رہے اور انہوں نے اپنے لیے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لیے کافی سمجھا، اور اس سے تجاوز نہیں کیا اور اس بات کا پکا ایمان رکھا کہ صحابہ کرام صحیح اسلام و ایمان پر قائم تھے، اور ان کی راہ پر چلنے میں ہی کامیابی ہے اور جو کوئی ان کی راہ سے ہٹ کر چلے وہ اپنے لیے گمراہی کو مول خرید رہا ہے، تاکہ لوگ بھی اس کے پیچھے چل کر گمراہ ہوں، اور ان سب کے گناہوں کا بوجھ اس کے کندھے پر ڈال دیا جائے۔یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: