کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 373
’’اے لوگو! بیشک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے،اور ہم نے تمہیں قبائل اور خاندان اس لیے بنایا ہے تاکہ تم پہچان حاصل کرسکو، تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو، بیشک اللہ تعالیٰ بڑے علم والے اور باخبر ہیں۔‘‘ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یا أیہا الناس إن ربکم واحد وأباکم واحدٌ، ألالا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمي علی عربيولا لِأسود علی أحمر ولا لِأحمر علی أسود إلا بالتقوی…))(مسند احمد) ’’ اے لوگو! بیشک تمہارا معبود ایک ہے، اور تمہارا باپ ایک ہے، آگاہ ہوجاؤ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر،کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضلیت نہیں، مگر افضل وہ ہے جو متقی ہے۔‘‘ اس کے بعد عربوں کی تمام شاخوں اور قبائل کی فضیلت ہے۔اور ان میں سے ہر ایک کا اس کی منزلت کے برابر حق ہے۔اگر یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی راہ چھوڑ کر خواہشات اور بدعات کے پیچھے پڑ جائیں تو ان کی کوئی فضیلت اور برتری نہیں ہے۔ موالی(غلامی /اتحاد) کا مسئلہ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(اورہر قوم کا موالی(غلام / منسوب) انہی میں سے ہے): قوم کا موالی: موالی کی دو قسمیں ہیں: 1۔ غلام: بھلے انہیں آزادی مل گئی ہو یا ابھی تک غلامی کی زندگی بسر کررہے ہوں، ان کا اعتبار موالین میں سے ہوگا۔ ان کے مالکوں کے ان پر حقوق ہیں اور ا ن کے حقوق ان کے مالکوں پر ہیں۔ 2۔ موالی یعنی حلیف: عربوں میں یہ عادت تھی کہ قبائل آپس میں اتفاق اور اتحاد کرلیتے تھے، جسے حلف کہتے، اور قبیلہ حلیف کہلاتا ہے۔ اور کسی قوم کے حلیف لوگوں کا شمار اسی قوم میں ہوگا جب تک کہ وہ دین پر استقامت کے ساتھ قائم رہیں۔ ان کی بھی وہی فضیلت ہوگی جو اس قوم کی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین وہ برگزیدہ جماعت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے مشیر اور وزیر بنانے اپنے نبی کی صحبت اوران کے پیغام کے نشر کرنے کے لیے چن لیا تھا، نہ صرف یہ بلکہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے انہیں معیار ایمان بھی مقرر کیا۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کے دلوں کو دیکھا۔ جو ان میں سب سے افضل تھے انہیں نبوت اور رسالت کے لیے چن لیا اور ان کے بعد جن کا درجہ تھا انہیں اپنے