کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 367
وأحکامہ، وأمرہ و نہیہ، علی عقولہم [و آرائہم]، فما وافق عقولہم قبلوہ، وما لم یوافق عقولہم، ردّوہ، فصار الإسلام غریباً، والسنۃ غریبۃ، وأہل السنۃ غرباء في [جوف دیارہم]…)) ’’بس پھر سنت اور اہل ِ سنت چھپ کر رہ گئے، اور بدعات ظاہر ہوئیں اور پھیل گئیں اور کئی لوگ ایسی وجوہات کی بنا پر کفر کے مرتکب ہوئے جن کو وہ جانتے ہی نہیں تھے اور انہوں نے قیاس گھڑ لیا۔وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی آیات اور احکام کو، اس کے امر اور نہی کو اپنی عقلوں اور آراء کے مطابق محمول کرنے لگے۔ جو چیز ان کی عقول کے موافق ہوئی، اسے قبول کرلیا، اور جو ان کی عقول کے موافق نہ تھی، اسے رد کردیا۔ بس اسلام اور سنت غریب اور اچھنبے ہو کر رہ گئے۔او راہل سنت بھی اپنے گھروں میں غریب ہو کررہ گئے۔ ‘‘ شرح: … یعنی اس سے پہلے اہل سنت کا غلبہ تھا، مگر اب اہل بدعت نے ایسا زور پکڑا کہ سنت اور اہل سنت چھپ کر رہ گئے۔ اہل بات کا غلغلہ ہوگیا، او روہ لوگ ں کو فتنہ میں مبتلا کرنے لگے، اور آپس میں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے کی وجہ سے خود بھی کفر میں واقع ہوگئے۔ اس سے مقصود مؤلف رحمہ اللہ کی طرف سے ان لوگوں کی تکفیر نہیں ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ انہوں نے ایسا کام کیا جس کی وجہ سے وہ کفر میں واقع ہوگئے، یا جو کام انہیں کفر کی طرف لے کر جانے والاہے۔ اس سے انہیں کافر کہنا مراد نہیں ہے۔ مصنف رحمہ اللہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے عقیدہ کے مسائل میں قیاس شروع کر دیا تھا۔ حالانکہ عقیدہ دوٹوک اور توقیفی(یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ہوتا ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ مگر انہوں نے اپنی اپنی رائے کو درست ثابت کرنے کے لیے تمام قسم کے علوم سے استدلال کیااور اللہ کی ذات میں اپنے عقل و فکر کو دخل دینے لگے، جو کچھ ان کی خواہش کے مطابق ہوتا، اسے لے لیتے، اور جو اس کے مخالف ہوتا اس کو رد کر دیتے۔ ان حالات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث صادق آنے لگی: ((بداء الإسلام غریباً، سیعود غریبا،کما بدائ، فطوبی للغربا۔)) ’’ اسلام غربت ہی شروع ہوا ہے، اور عنقریب غریب ہوجائے گا، پس مبارک ہو غریبوں کے لیے۔‘‘ عورتوں سے متعہ 96۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((واعلم أن المتعۃ-متعۃ النسائ-والاستحلال حرام إلی یوم القیامۃ۔))[1] اور جان لیجیے کہ: یہ کہ متعہ-عورتوں سے متعہ کرنا-، اور استحلال-یعنی حلالہ کرنا-، قیامت تک کے لیے
[1] أخرجہ مسلم (425)، من حدیث ابی ہریرہ /والترمذی (26309)۔