کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 365
شرح: …مصنف رحمہ اللہ اس پیرائے میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جن تین زمانوں کے بہتر ہونے کی گواہی دی گئی تھی، جیسا کہ حدیث میں ہے: ((خیرالناس قرنی، ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم)) ’’ بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر جو ان کے بعد آئیں گے، پھر جو ان کے بعد آئیں گے۔‘‘ جب یہ تین زمانے گزر گئے، او ربنی عباس کی خلافت قائم ہوگئی، اور مأمون عباسی اور پھر اس کے بعد معتصم اور واثق آئے تو انہوں نے قرآن کے مخلوق ہونے کے بارے میں جہمیہ کی رائے سے متأثر ہوکر اس کی تائید کرنا شروع کردی اور لوگوں کو زبردستی اس رائے پر لانے لگے۔اہل سنت و الجماعت پر امتحان کا ایک دور شروع ہوگیا۔ بہت سے علماء حق کو قتل کر دیا گیا، بہت سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے گئے۔ ان حالات میں حق پر وہی لوگ ثابت قدم رہ سکے جن پر اللہ نے اپناانعام فرمایا تھا۔ گمراہیوں کی طرف بلانے والے بڑھ گئے، ان کو حکومت کی پشت پناہی بھی مل گئی۔ عام مسلمان اور خاص کر علمائے کرام رحمۃ اللہ علیہم کا طبقہ امتحان کا شکار ہوئے۔ نئے نئے علوم کے ترجمہ کی وجہ سے ہر چھوٹا بڑا عالم ہونے کا دعوی کرنے لگا۔لیکن یہ سارے لوگ کتاب و سنت سے بہت ہی دور اور مختلف قسم کی گمراہیوں کا شکار تھے۔ اس پیرائے سے یہ بھی پتہ چلا کہ ایسے حالات میں دین ِحق اور منہج سلیم پر قائم رہنے کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں: 1۔ علم ِ نافع:… جس کی بنا پر معلوم ہوسکے کہ کتاب و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس مسئلہ میں کیا مؤقف ہے، اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد آنے والے تابعین کس منہج، و عمل پر تھے۔ 2۔ صبر و ثبات:… جب فتنے بڑھ جائیں تو اس وقت دین حق پر قائم رہنے کے لیے ثابت قدمی اور صبرو استقامت بہت ضروری ہیں۔ ایسے وقت میں انسان کو نہ ہی کسی ملامت گر کی ملامت کا خوف ہونا چاہیے او رنہ ہی کسی ظالم کے ظلم کاڈر۔ بس فکر و نظر یہ ہونی چاہیے کہ اللہ کا دین کیسے سلامت رہ جائے۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((ودعوا إلی الفرقۃ، وقد نہی الرسول صلي اللّٰه عليه وسلم عن الفرقۃ-۔ وکفر بعضہم بعضاً، وکلٌ ّ داعٍ إلی رأیہ، وإلی تکفیر من خالفہ فضلَّ الجہال، والرعاع، ومن لا علم لہ، وأطمعوا الناس في شيئٍ من أمر الدنیا، وخوَّفُوہم عقاب الدنیا، فاتبعہم الخلق علی خوف [ في] دینہم۔ ورغبۃ في دنیاہم۔)) ’’اور فرقہ بندی کی دعوت دینے لگے،-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرقہ بندی سے منع کیا تھا-،اور آپس میں ایک دوسرے کو کافر کہنے لگے اور ہر ایک اپنی رائے کی طرف بلانے لگا، اوراپنے مخالف کی تکفیر کی دعوت