کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 364
تھے، اس لیے وہ لوگوں میں چھپ چھپا کر سازشیں کرتے، اور سادہ لوح نئے نئے مسلمان عوام کو اپنی گمراہ کن خواہشات کا نشانہ بناتے۔ اس لیے کہ اس وقت تک اسلام بڑا مضبوط تھا، اور ان لوگوں میں کھلے عام داؤ پیچ لڑانے کی ہمت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یمن کے شہر صنعاء کا یہودی عبد اللہ بن سبائ(اسے ابن سوداء بھی کہتے ہیں)، ظاہر ہوا۔ اس نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا، اور مدینہ منورہ چلا آیا اور محفلوں میں خلیفہ برحق پر سب و شتم کرنے لگا۔ پھر آہستہ آہستہ اپنے باطن کی خباثت اور زہر کو ظاہر کرتا چلا گیا، اور سادہ لوح عوام بہکانے کی کوششیں کرتا رہا۔ جب مدینہ میں صحابہ کرام کی موجود گی میں اسے پذیرائی نہ ہوئی تو اس نے مدائن، مصر، کوفہ اور دوسرے شہروں کا رخ کیا، اور وہاں پر لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بھڑکانے میں کامیاب ہوگیا، جس کے نتیجہ میں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت مدینہ منورہ کا گھیراؤ کرلیا گیا، اور چالیس دن کے بعد داماد ِ رسول، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہم زلف اور جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بہنوئی کو انتہائی مظلومیت کی حالت میں شہید کردیا گیا۔ إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ بنے۔ مگر بد قسمتی سے تمام لوگ ان کی بیعت پر جمع نہ ہوسکے، جس کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوا، اور مسلمانوں کے مابین انتہائی خونریز معرکے پیش آئے۔ لیکن اس وقت تک یہ مذہبی اختلاف نہیں تھا۔ پھر اس کے بعد لوگ مخالفت برائے مخالفت میں ایک دوسرے کے خلاف کرنے لگے،او راپنی اپنی رائے کو ثابت کرنے کے لیے احادیث گھڑنے لگے۔جس کی وجہ سے کئی گمراہ فرقے سامنے آئے، جن میں سے ایک دوسرے کو کافر کہتا اور ان کے خلاف فتوے لگاتا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت و کے متوالوں اہل سنت و الجماعت پر انعام فرمایا، اور انہیں دین حق پر ثابت قدمی عطا کی اور انہوں نے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ رکھنے کی خاطر اپنی جانوں تک کے نذرانے پیش کردیے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیاں قبول فرمائے،اور انہیں اس امت کی طرف سے بہترین بدلہ دے۔ آمین۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((فکان الأمر مستقیماً حتی کانت الطبقۃ الرابعۃ في خلافۃ بني فلان، انقلب الزمان، وتغیر الناس جداً، وفشت البدع، وکثر الدعاۃ إلی غیر سبیل الحق و الجماعۃ۔ و وقعت المحنۃ في[کل] شيئٍ، لم یتکلم بہ رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ولا أحد من أصحابہ۔)) ’’یہ تمام معاملہ صراط ِ مستقیم پر ہی رہا، یہاں تک کہ چوتھے طبقہ میں بنی فلاں کی خلافت میں ایک انقلاب آگیا، اور لوگ بہت ہی زیادہ تبدیل ہوگئے۔اوربدعات پھیل گئیں، حق او رجماعت سے ہٹ کر دعوت دینے والے بہت بڑھ گئے اور ہر چیز میں آزمائش پیش آنے لگی۔(ایسے امور) جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک نے بھی کوئی کلام نہیں کیا تھا۔‘‘