کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 363
بعضکم علی بعض أمرائٌ تکرمۃُ اللّٰه لہذہ الأمۃ۔)) [1] ’’ میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم جہاد کرتی رہے گی، یہاں تک کہ عیسی بن مریم علیہما السلام نازل ہوں گے، تو ان کا امیر کہے گا: آئیے ! ہمیں نماز پڑھائیں۔ مگر عیسی علیہ السلام فرمائیں گے: نہیں، بلاشبہ تم میں سے بعض دوسروں پر امیر ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے لیے اکرام و شرف ہے۔‘‘ اس حدیث میں جن گمراہ فرقوں کی خبر ہے ان کی ساری بنیادی جہنم میں ہے۔ جب کہ تہترواں فرقہ یا گروہ جسے آپ نمبر شمار کے لحاظ سے پہلے درجہ پررکھ سکتے ہیں،وہ لوگ جنتی ہیں اور ان لوگوں کی نشانی وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان سے بیان فرمائی ہے: ((ما أنا علیہ الیوم و أصحابي۔)) ’’ جس پرآج میں اور میرے صحابہ ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی راہ پر قائم ان لوگو کو فرقہ ناجیہ کہنا بھی درست ہے، اور انہیں اہل سنت و الجماعت بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ جتنے لوگ ہیں وہ اس منہج کی مخالفت کی وجہ سے جہنم کی بشارت دیے گئے ہیں اور جہنم کی یہ بشارت ان کی معصیت اور نافرمانی کی وجہ سے ہے۔ اس سے کوئی یہ بات نہ سمجھ لے کہ وہ کافر ہوچکے ہیں، اس لیے انہیں جہنم کی بشارت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضل و کرم سے تفرقہ بازی سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ (مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں): ((وہکذا کان الدّین إلی خلافۃ عمر [ ابن الخطاب رضی اللّٰه عنہ]، الجماعۃ کلہا، وہکذا کان في أول زمن عثمان رضی اللّٰه عنہ، فلما قتل عثمان رضی اللّٰه عنہ جاء الاختلاف والبدع، وصار الناس أحزاباً، وصاروا فرقاً، فمن الناس من ثبت علی الحق عند أول التغییر، وقال بہ [وعمل بہ]، ودعا الناس إلیہ۔)) ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں دین ایسے ہی تھا اور حضرت عثمان ر ضی اللہ عنہ کے دور میں بھی ایسے ہی رہا۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا گیا تو اس وقت اختلافات اور بدعات پیدا ہوئے اور لوگ گروہ اور فرقے بن گئے۔لوگوں میں بعض ایسے تھے جو اس تبدیلی کی ابتداء میں حق پر رہے، اورلوگوں کو اسی کی طرف دعوت دیتے رہے۔‘‘ شرح: …صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کے زمانہ میں مخالف لوگ کھل کر سامنے آنے کی جرأت نہیں کرسکتے
[1] رواہ مسلم (1924) کتاب الإیمان،- باب:نزول عیسی بن مریم حاکماً، 395۔