کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 360
اس کو(بھی وہی) جانتا ہے اور ایک پتہ نہیں گرتا مگر اس کو معلوم رہتا ہے اور نہ کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں(یعنی زمین کے اندر یا تاریک مقاموں میں) اور نہ کوئی ہرا نہ کوئی سُوکھا جو کھلی کتاب(لوح محفوظ میں)۔‘‘ مگر کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کے انبیاء غیب کے بارے میں کوئی خبر دیتے ہیں، جو کہ سو فیصد بالکل درست ہوتی ہے، اوروہ اللہ کے بتائے ہوئے علم سے ہی آگے بتاتے ہیں، فرمان الٰہی ہے: ﴿ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآئِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ﴾(یوسف:102) ’’(اے پیغمبر) یہ غیب کی خبریں جوہم آپ کی طر ف وحی کرتے ہیں۔‘‘ اور دوسری جگہ پر فرمایا: ﴿عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہِ اَحَدًا o اِلَّا مَنْ ارْتَضَی مِنْ رَّسُوْل﴾(الجن: 26۔27) ’’غیب کا علم اسی کو ہے وہ اپنے غیب کو کسی پر نہیں کھولتا مگر جس پیغمبر کو وہ چاہتاہے(اس کو غیب کی کوئی بات بتادیتا ہے)۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک سخت گرمی کے دن سورج کو گرہن لگ گیا۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھی اور بہت لمبی نماز پڑھی، یہاں تک کہ صحابہ گرنے لگے۔ پھر آپ نے رکوع کیا، اور پھر آپ کھڑے ہوئے اور ایسے ہی کیا۔ پھر آپ آگے بڑھے اورپیچھے ہٹے۔-یہ نماز-چار رکوع اور چار سجدوں پر مشتمل تھی۔پھر آپ نے فرمایا: ’’بیشک مجھ پر ہر وہ چیز پیش کی گئی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ مجھ پر جنت پیش کی گئی۔یہاں تک کہ میں نے اس سے کچھ پھلوں کو پالیا۔ اگر میں چاہتا تو انہیں لے لیتا۔ … پھر مجھ پر جہنم کو پیش کیا گیا۔ میں اس سے پیچھے ہٹنے لگا، اس ڈر سے کہ کہیں تمہیں گھیر نہ لے…‘‘ [1] افتراق ِ امت کی بشارت 95۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((واعلم أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قال:’’ ستفترق أمتي علی ثلاث وسبیعن فرقۃ، کلہا في النار إلا واحدۃ، وہي الجماعۃ۔‘‘قیل من ہم یارسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ؟ قال: ’’ ما أنا علیہ
[1] صحیح ابن خزیمہ: باب ذکر عدد الرکوع في کل رکعۃ من صلاۃ، ح: 1381۔مسلم في الکسوف، باب: ما عرض علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم في صلاۃ الکسوف، ح: 905۔ بخاری ح: 1004۔