کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 36
مقدمہ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِلْاِسْلَامِ، وَمَنَّ عَلَیْنَا بِہٖ، وَأَخْرَجْنَا فِيْ خَیْرِ اُمَّۃٍ، فَنَسْأَلُہُ التَّوْفِیْقَ لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضٰی وَالْحِفْظَ مِمَّا یَکْرَہُ وَیَسْخُطُ۔)) ’’ تما م تر تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمیں اسلام کی طرف ہدایت دی اور ہم پر اس کے ذریعہ سے احسان کیااور ہمیں بہترین امت میں پیدا کیا۔ ہم اس سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس چیز کی توفیق دے جسے وہ پسند کرتا ہے اور جس سے وہ راضی ہوتا ہے اور اس چیزسے محفوظ رکھے جسے وہ نا پسند کرتا ہے اور ناراض ہوتا ہے۔ شرح:… یہ کتاب کا خطبہ ہے۔ آپ نے سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی کتاب کو ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ‘‘سے شروع کیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تحریروں اور تقریروں کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء سے فرمایا کرتے تھے اور آپ کے بعد اہل علم سلف ِ صالحین رحمہم اللہ کا بھی یہی معمول رہا ہے۔ کہ وہ کتاب اللہ کی پیروی کرتے ہوئے اپنی کتابوں کو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ’’ الحمد للّٰہ ‘‘ سے شروع کرتے ہیں۔ ٭ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کا معنی یہ ہے کہ:’’ تمام تر تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ کی تعریف اس کی ذات کی وجہ سے بھی کی جاتی ہے اور اس کے اسماء وصفات کی وجہ سے بھی اور اس کے افعال پر بھی وہ تعریف کا سزاوار ہے۔ حمد کا حقیقی مستحق کون؟ حمد کی تمام تر انواع و اقسام اسی اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، وہی اس کا حقیقی مستحق ہے۔ اس لیے کہ تمام تر نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں۔ اللہ کے علاوہ جس کی بھی تعریف کی جائے گی، وہ محدود ہوگی۔ اتنی ہی تعریف ہوگی جتنی اس سے بھلائی پیش آئی ہو۔مگر مطلق اور کامل و شامل حمد صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہوگی۔ یہ بات جائز نہیں ہے کہ کوئی کہے: ’’ تمام تعریفیں فلاں کے لیے ہیں۔‘‘ ایسا کہنا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہی زیب دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ ’’تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہاں کا پالنے والا ہے۔بڑا مہربان رحم والا۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا