کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 355
جھوٹا زہد اورجھوٹا توکل اختیار کرکے ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo﴾(الجمعہ: 9، 10) ’’مسلمانو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ تعالیٰ کی یاد(نماز) کی طر ف(دنیا کے سب کام) اور بیچ(کھوچ) چھوڑ دو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو۔پھر جب(جمعہ کی) نماز ہو چکے تو(تم کو اختیار ہے اپنے اپنے کاموں کے لیے) زمین میں پھیل جاؤ اوراللہ تعالیٰ کا فضل(روزی)تلاش کرو اور(جہاں رہو) اللہ کی یاد بہت کرتے رہو اس لیے کہ تم مراد کو پہنچو۔‘‘ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے جنہیں ان کی تجارتیں اور کاروبار اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرسکتے۔بلکہ وہ صبح وشام کو عبادت سے اللہ کے گھروں کو آباد کرنے والے ایسے افراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے((رجال)) یعنی جوانمرد کا خطاب دیا ہے، فرمایا: ﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ o رِجَالٌ لَا تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیتَائِ الزَّکَٰوۃ …﴾(النور36-37) ’’ ان گھروں میں(ہے) جن کی تعظیم کرنے کا(یا بلند کرنے کا)اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان میں صبح اورشام اللہ تعالیٰ کانام لیاجاتاہے۔اللہ تعالیٰ کی تسبیح وہ لوگ کرتے ہیں جو کو کوئی سوداگری اور مول تول اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے درستی کے ساتھ ادا کرنے سے زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتے…‘‘ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(مسلمانوں کے بازار میں ان کی خرید و فروخت ہو …): یعنی جو چیز مسلمانوں کے بازاروں میں فروخت ہورہی ہو، اس کے متعلق پوچھ گچھ اورتفتیش نہیں کی جائے گی، اس لیے کہ یہ لین دین اپنی اصل اباحت پر ہورہا ہے۔ جب تک یہ خرید و فروخت شرعی احکام و شرائط کے مطابق ہورہی ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ کسب ِ رزق حلال کے لیے ایسا کرنا عین عبادت ہے۔ او رجب شرعی شرائط ٹوٹ جائیں تو اسی قدر اس کے حرام یا ناجائز ہونے کا حکم لگایا جائے گا جس قدر شریعت کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔مطلق طور پر تجارت او رخرید فروخت کو تر کردینا جھوٹے عبادت گزاروں اور ریا کاروں کا طریقہ ہے۔ اصل میں یہاں اس پیرائے میں مصنف رحمہ اللہ ان ریاکار و مکار، جھوٹے اورغالی صوفیاء پر رد کررہے ہیں جو بیع و شراء ترک کرکے، اورخود پر تجارت وغیرہ کی ممانعت لازم کرکے جھوٹی عبادتیں کرتے ہیں۔ بعض فرقے ایسے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ ترک ِ دنیا ہی اصل دین ہے۔اور جتنے بھی ذرائع کسب و معاش ہیں، وہ سب دین کا فساداور وقت کا ضیاع ہیں۔ حالانکہ سلف ِ امت جو کہ کائنات کے بہترین لوگوں میں سے ہیں، وہ خرید و فروخت اور تجارت کیا کرتے تھے اور