کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 353
’’یہ اللہ تعالیٰ کاوعدہ ہے اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ خلاف نہیں کرتا مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا وعدہ کرتے ہیں تو اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے، اور جب کسی چیزپر عذاب سے ڈراتے ہیں توکبھی معاف بھی کردیتے ہیں، معاف کرنا اس کا فضل اور رحمت ہے اور کبھی اس وعید کو پورا کرتے ہیں اور اس سزا دیتے ہیں۔ اس سزا کے دینے میں وہ عادل ہے، ظالم نہیں اور جو کچھ اس نے فرمایا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ اہل بدعت کاآیات ِ صفات میں تأویل کرنا یا ان نصوص کا انکار کرنا ایک نئی ایجاد ہے جو سلف ِ صالحین صحابہ اور تابعین کے دور میں نہیں تھی۔ مصنف رحمہ اللہ اس پیرائے میں اسی چیز پر رد کررہے ہیں۔ شرائع پر ایمان 90۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((والإیمان بالشرائع کلہا۔)) ’’ تمام شرائع پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ ‘‘ شرح: …شرائع کے کئی ایک معانی ہیں: 1۔ شرائع بمعنی عام: یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتیں، جن میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت بھی شامل ہے۔ ان پر ایمان لانا واجب ہے، مگر ان کے متعلق غور و فکر کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ اسلام آنے سے یہ تمام شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔(یہ ایمان بالکتب کے مسئلہ میں شامل ہے)۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ﴾(آل عمران: 84) ’’(اے پیغمبر) کہہ دے ہم تو ایمان لائے اللہ پر اور جو ہم پر اترا(قرآن) اور جو ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولادپر، اورجو کچھ موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے ملا ہم ان میں سے کسی کو الگ نہیں کرتے(سب کو مانتے ہیں اور سچا پیغمبر جانتے ہیں) اور ہم اسی(ایک اللہ) کے تابع دار ہیں۔‘‘ نیز ارشاد ربانی ہے: ﴿قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ مَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ﴾(البقرہ:136)