کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 351
سلف صالحین کے ہاں انسان پر پہلا واجب اللہ تعالیٰ کا اقرارکرنا اور اس پر ایمان لانا ہے۔ یعنی ’’ لا إلہ إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰہ ‘‘ کا اقرار کرنا ہے۔ یہ کہنا کہ انسان پر پہلا واجب ’’ غور فکر کرنا ‘‘ ہے، یہ ایسا معاملہ ہے جس کی ہر انسان استطاعت نہیں رکھتا۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کو ماننا اور اس کا اقرار کرنا ایک فطری امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق جو کچھ اپنی کتاب میں بیان کردیا ہے، اور جو کچھ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے، وہ ہمیں اس بات سے مستغنی کردیتا ہے کہ ہم اس کے بارے میں اس سے آگے زیادہ غور و فکر کریں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق امور غیب سے تعلق رکھتے ہیں جن کا ادراک بشری عقول نہیں کرسکتیں۔ نیز تمام بشریت کی عقلیں برابر نہیں ہیں کہ سارے لوگ غور و فکر کے ذریعہ ایک ہی نتیجہ پر پہنچیں۔ جب کہ اسلام ایک فطری امر ہے، جو ہر ادنی اور اعلی کو حاصل ہے، اور اس کا اقرار کرنا اور اسے کے سامنے سر ِ تسلیم خم کرنا سب پر واجب ہے۔اس سے فلاسفہ کے قول کا بودہ پن اور باطل ہونا صاف ظاہر ہے۔ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر جہنم کی آگ کو حرام کردیا ہے جس نے خالص اللہ کی رضا کے لیے ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ کہا ہو۔‘‘ متفق علیہ۔ سو شہادت(یعنی ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ ‘‘ کے اقرار) کا معنی یہ ہواکہ دل میں اس کا اعتقاد اور یقین ہو،اورزبان سے اس کا اقرار کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے، اوراللہ تعالیٰ کے علاوہ جتنے بھی معبود ہیں سب باطل ہیں، ارشاد الٰہی ہے: ﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْعَلیُّ الْکَبِیْرُ﴾(الحج:62) ’’(اور)یہ اس لیے کہ اللہ ہی سچا اللہ ہے اور اس کے سوا(کافر) جس کو پکارتے ہیں وہ غلط ہے(جھوٹ لغو ہرگز اللہ نہیں ہے) اوراس لیے اللہ ہی سب سے بلند اورسب سے بڑا ہے۔‘‘ اور(’’محمد رسول اللّٰہ ‘‘ کے اقرار) کا معنی یہ ہوا کہ ظاہری و باطنی طور پر اس بات کوجانا جائے، اوراس پر دل سے یقین کامل رکھا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔جوانسان زبان سے اقرار کرے مگر دل سے یقین نہ کرے، شکوک و شبہات کا شکار ہو،وہ منافق ہے، اس کی زبانی گواہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہ ہوگی، ار شاد الٰہی ہے: ﴿اِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُوْنَ﴾(المنافقون: 1) ’’(اے پیغمبر) منافق جب آپ کے پاس آتے ہیں توکہتے ہیں ہم تو(دل سے) اس بات کی گواہی دیتے