کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 339
سے دل تنگ ہوجاتا ہے، اور انسان راہ ِ ہدایت سے دور چلا جاتا ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: ﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ أَنْ یَّہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلإِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ أَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقاً حَرَجاً کَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَائِ کَذَلِکَ یَجْعَلُ اللّٰہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَo﴾(الانعام: 125) ’’ تو جس شخص کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اُس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اس طرح اللہ اُن لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے، عذاب بھیجتا ہے۔‘‘ گمراہی پر کٹ حجتی کے اسباب دین میں بدعات کے اختیارکرنے، گمراہی پر ہٹ دھرمی، اور اپنی رائے کی تائید کے لیے داؤ پیچ لڑانے کے کئی ایک اسباب ہیں۔ جن کی تفصیل کے بیان کا یہ موقع نہیں، تاہم قارئین کے فائدہ کے لیے ان میں سے دو سبب بڑے اہم ترین اسباب کا یہاں پر بیان کیا جارہا ہے، تاکہ وہ ان سے خبردار رہیں: 1۔ اندھی تقلید: اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے باپ دادا کی جاہلانہ رسومات کو حق بات واضح ہوجانے کے بعد صرف اس وجہ سے اختیار کیے رہے کہ اس کے باپ دادا، یا پیر اور استاد، شیخ اور امام اس طریقہ کے کاربند تھے، لہٰذا بھلے قرآن وسنت کی دلیل اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، وہ اس واضح دلیل کو چھوڑ کراپنے آباء کی راہ پر قائم رہے گا۔ ایسا کرنے والے کا گمان یہ ہوتا ہے کہ اس کے باپ دادا، پیر، استاد، شیخ یا امام سے غلطی کا امکان نہیں ہے۔ حالانکہ وہ لوگ انسان ہی تھے۔ ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے، اور لا علمی کا امکان بھی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں وہ اللہ کے ہاں معذور ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے ہاں کوئی دوسری حدیث ہو، یا کسی تأویل کا شکار ہوں۔اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حق بات جانتے ہوئے ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی بدعت پر کاربند رہے ہوں۔ ان تمام صورتوں میں حق بات واضح ہونے کے بعد باپ دادا کی راہ چھوڑ کر اتباع قرآن و سنت لازم ہوجاتی ہے۔ ایسا نہ کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مذمت کی ہے، ارشاد ِ الٰہی ہے: ﴿وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْاْ إِلَی مَا أَنزَلَ اللّٰہُ وَإِلَی الرَّسُولِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَائَ نَا أَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُہُمْ لَا یَعْلَمُونَ شَیْئاً وَلَا یَہْتَدُونَo﴾(المائدہ: 104) ’’اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو(کتاب) اللہ نے نازل فرمائی ہے اُس کی اور رسول اللہ کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ جس طریق پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے وہی ہمیں کافی ہے بھلا اگر اُن کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ سیدھے رستے پر ہوں(تب بھی) ؟‘‘