کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 337
السیل، أو إلی جانب السیل، ألم تروا أنہا تأتي صفراء ملتویۃ))[1] ’’ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائینگے، اور جہنمی جہنم میں داخل ہوجائینگے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے فرمائیں گے: دیکھو ! جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان پاؤ، اسے جہنم سے نکال دو، فرمایا: پھر انہیں نکالا جائے گا، اور وہ کوئلہ بن چکے ہوں گے۔ انہیں ایک نہر میں ڈالا جائے گا جس کا نام ہوگا ’’نہر حیات‘‘،۔وہ اس سے ایسے اگیں گے جیسے سیلاب کی جھاگ میں کونپل اگتی ہے، یا اس کی ایک جانب۔کیا تم دیکھتے نہیں ہو وہ کیسے لپٹی ہوئی پیلے رنگ میں چڑھتی ہے؟۔‘‘ دیدار الٰہی 83۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((واعلم أن أول من ینظر إلی اللّٰه [تعالی] في الجنۃ الأضرائ[2]، ثم الرجال، ثم النسائ، بأعین رؤوسہم، کما قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم: ’’إنکم سترون ربکم کما ترون القمر لیلۃ البدر، لا تضَامّون في رؤیتہ[3]۔‘‘والإیمان بہذا واجب وإنکارہ کفر۔)) ’’اور جان لیجیے کہ روز محشر سب سے پہلے اندھے اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے، اور پھر مرد، پھر عورتیں۔سب اپنے سر کی ان آنکھوں سے دیکھیں گے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إنکم سترون ربکم کما ترون القمر لیلۃ البدر، لا تضَامّون في رؤیتہ))۔ ’’ بیشک تم اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو ایسے دیکھو گے جیسے چودھویں کی رات چاند کو دیکھتے ہو، اور اس کے دیکھنے میں تمہاری نظریں ٹکرائیں گی نہیں۔‘‘[یعنی دیکھنے میں تکلیف نہ ہوگی]۔اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔‘‘ حدیث کے لفظ:(لا تضَامّون) کا معنی یہ ہے کہ تم ایک دوسرے ٹکراؤگے نہیں، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے وقت بھیڑ بھاڑ ہوگی اور دوسرا معنی اس کا یہ ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے دیکھنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ کہ تم میں سے بعض اللہ کو دیکھ سکیں اور بعض نہ دیکھ سکیں۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک مرفوع حدیث میں وارد ہوا ہے۔ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:’’اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اوراس کا انکار کرنا کفر ہے۔‘‘
[1] رواہ البخاری (6560)ومسلم (184) مختصر الشریعہ ص 190والمصنف (802)۔ [2] اسے دیلمی نے ’’فردوس الأخبار‘‘ (1/55) میں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے اور امام لالکائی نے ’’السنۃ‘‘ (924) میں حسن بصری رحمہ اللہ سے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ [3] دیکھیں: ’’ النہایۃ ‘‘ لابن أثیر (3/101)۔ یہ حدیث اصل میں امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کی ہے ۔ دیکھو: صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، اور مسلم (633)کتاب المساجد باب صلاتي الصبح و العصر ‘‘ من حدیث جریر بن عبد اللّٰه ۔