کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 329
بارے میں سوال نہیں کیا جاسکتا۔جن لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو مقدر کردیا ہے، یہ اس کے سابق علم کی بنیاد پر ہے، وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ اہل ِ ہدایت کے اعمال کریں گے، اور گمراہی کامعاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل میں اس حد تک تو سب کافر اور مسلم برابر کے شریک ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا، اچھی شکل و صورت دی، اپنے انعامات کیے، اور ان کی ہدایت کے لیے رسول بھیجے، اور کتابیں نازل کیں۔ مگر وہ جانتا تھا کہ کون اسے قبول کرے گا اور کون نہ مانے گا۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیکوکار بندوں کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دی اور پھر ان میں بھی اطاعت اور عمل کے لحاظ سے لوگوں کے مراتب مختلف ہیں۔ اس میں ان غالی صوفیوں، متکلمین اور فلاسفہ پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ کافر اور مسلمان میں فرق صرف شکلی ہے، اس کا آخرت میں کوئی اثر نہ ہوگا، اور نہ ہی مسلمان کی کوئی خاصل فضیلت ہے، بلکہ کافر مسلمان سے بہتر ہے اور آخرت میں کافروں کو عذاب نہیں ہوگا بلکہ وہ آگ سے لطف اندوز ہوں گے اور راحت پائیں گے۔ایسے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جرأت کرتے ہوئے ایسی باتیں کرتے ہیں: ﴿مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَo أَفَلَا تَذَکَّرُونَo أَمْ لَکُمْ سُلْطَانٌ مُّبِیْنٌo فَأْتُوا بِکِتَابِکُمْ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَo﴾(الصافات: 154۔ 157) ’’ تم کیسے لوگ ہو کس طرح کا فیصلہ کرتے ہو؟۔ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟ یا تمہارے پاس کوئی صریح دلیل ہے؟۔ اگرتم سچے ہو تو اپنی کتاب پیش کرو۔‘‘ انسان کے اعمال اور سلوک و برتاؤ، اور محبت ونفرت میں بھی حسن اسلوب اور حکمت کے ساتھ اس فضیلت اور برتری کا اظہار ہوناچاہیے جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر انعام کی ہے۔ مثال کے طور پر عالم ِ دین کا زیادہ احترام کرے، اور طالب علم کا اس سے کم اور ایسے ہی جو دین کا جتنا زیادہ دشمن ہو اس سے اتنی ہی نفرت رکھے اورعام کافر سے اس سے کم۔ نصیحت اور خیر خواہی 80۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((ولا یحل أن تکتم النصیحۃ أحداً من المسلمین،-برّہم و فاجرہم-في أمر من أمور الدین، فمن کتم، فقد غش المسلمین، ومن غش المسلمین فقد غش الدین، ومن غش الدین فقد خان اللّٰه و رسول اللّٰه و ا لمؤمنین۔)) ’’یہ حلال نہیں ہے کہ مسلمانوں کے دین کے معاملہ میں ان کی خیر خواہی [نصیحت ] کو چھپا کر رکھاجائے۔-نیک و فاجر، کسی کے لیے بھی-۔ جس نے نصیحت کو چھپایا، اس نے مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ بازی کی۔ جس نے مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ بازی کی، اس نے دین میں ملاوٹ کی، اور جس نے دین میں ملاوٹ کی، اس نے یقینا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مؤمنین سے خیانت کی۔‘‘