کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 314
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث مروی ہے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’کیا آپ نے اپنے ربّ کو دیکھا تھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک نور دیکھا، اللہ کو کہاں دیکھ سکتا تھا۔ یعنی میرے اور اللہ کی رؤیت کے درمیان ایک نور حائل تھا۔‘‘[1] جیسا کہ ایک دوسری روایت میں آیا ہے، میں نے ایک نور کو دیکھا ہے۔ ابن قیم کہتے ہیں: عثمان بن سعید دارمی نے صحابہ رضی اللہ عنہم کا اتفاق نقل کیا ہے کہ آپ نے اللہ کو نہیں دیکھا۔‘‘ معراج حالت بیداری میں مصنف رحمہ اللہ کا قول:(…یہ سب بیداری کے عالم میں ہوا): مصنف یہاں پر اس مسئلہ سے متعلق عقیدہ کے اہم ترین معاملہ کو بیان کررہے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج حالت بیداری میں ہوئی، نہ کہ خواب میں جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ خواب میں تو کوئی بھی کہیں بھی جاسکتا ہے، اس میں تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی معجزہ نہ ہوتا، اور نہ ہی کفار اس کا انکار کرتے۔ اس جملہ میں ان لوگوں پر رد کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {أسری بعبدہ} اس نے اپنے بندے کو سیر کرائی۔ بندہ روح اور جسم کے مجموعے کا نام ہے۔ نہ ہی اکیلے جسم کو عبد(بندہ) کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی فقط روح کو۔ یہ دونوں کے مجموعے کانام ہے۔ جمہور سلف صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کا مذہب یہ ہے کہ معراج بیداری کی حالت میں روح اور جسد کے ساتھ ہوئی ہے اور یہ وہ معجزہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو چیلنج کیا۔ سفر معراج کے معجزات اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی معجزے ہیں جنہیں سیرت نگار علمائے کرام نے شمار کیا ہے۔ان معجزات کا خلاصہ یہ ہے: 1۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینۂ مبارک چاک کیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو نکال کر دھویا گیا اور اسے ایمان سے بھرکر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ مبارک میں لوٹا دیا گیا۔ 2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شراب، شہد اور دودھ لایا گیا، تو آپ نے دودھ کو پسند کیا، یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فطرت کو پسند کیا، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قائم ہیں، اور آپ کے بعد آپ کی امت اس پر قائم رہے گی۔ 3۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں چار نہریں دیکھیں، دو نہریں اندر کی طرف سے اور دو باہر کی طرف سے، اوریہدونوں دریائے نیل وفرات تھے،باہر کی نہریں جیحان اور سیحان ہیں۔
[1] مسلم، باب فِي قولِہِ علیہِ السلام: نورأ ني أراہ، وفي قولِہِ: رأیت نوراً، ح: 461۔