کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 310
اور جو کچھ کائنات میں آج تک ہوا ہے، اور جو کچھ قیامت تک ہوگا، اللہ تعالیٰ کو اس کے ہر ہر جزئیے اور کلیے کا علم ہے، اور سب کچھ اس کی مشیت کے مطابق ہی ہوگا۔ مندرجہ بالا پیرائے میں تقدیر پر ایمان رکھنا اس لیے ضروری قراردیا گیا ہے کہ تقدیر اللہ تعالیٰ کے مقرر شدہ فیصلوں اور اس کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور اس میں کٹ حجتی اور مناظرہ و مباحثہ کرنا بھی اسی لیے منع ہے کہ یہ غیب کی بات ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہی خاص ہے، جس پر کوئی دوسرا مطلع نہیں ہوسکتا، پھر اس میں بحث و تمحیص کرنا اللہ تعالیٰ پر بغیر علم کے بات کہنا ہے۔ نیز یہ کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے بعد آنے والے سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم جن کے اتباع کے ہم مکلف ہیں، وہ تقدیر میں بحث و مناظرہ سے منع کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں اس سے رک جانا چاہیے۔ تقدیر پر ایمان کیسے؟ تقدیر پر ایمان کامل تسلیم و رضا سے ہی ممکن ہے۔ کہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلہ پر راضی ہو جائے اور یہ یقین کر لے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے نصیب میں لکھا تھا وہ ہوگیا اور ہوکر رہے گا۔ اس فقرہ میں بھی’’جدال و مراء-جھگڑا اور کٹ حجتی-‘‘ جیسے اہم اور خطرناک مسئلہ کی طرف اشارہ ہے۔ یہ ان مسائل میں سے ایک ہے جس میں سابقہ اور موجودہ زمانہ کے لوگ مبتلا رہے ہیں۔مناظرہ اور کٹ حجتی اسلام میں اصلًا منع ہے۔ اس کی اجازت صرف ان لوگوں کو ہے جو اس کے اہل ہوں اور اس فن کی شرائط ان میں پائی جائیں۔ اصل میں ناحق انکار اور کٹ حجتی کرنا ’’أھل أھواء ‘‘(گمراہ) فرقوں کے اصول اور منہج میں سے ہے۔ جب کہ اہل سنت والجماعت کا یہ طریق کار نہیں ہے۔ دین کے تمام ہی امور میں جھگڑا کرنا برا اور ممنوع ہے، لیکن قدر[یعنی تقدیرجیسے: انسان کا خوش بخت یا بد بخت ہونا، اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ، رزق اور مستقبل کے اعمال جو بھی غیب سے تعلق رکھتے ہیں] جیسے مسئلوں میں اس کی قباحت اوربھی بڑھ جاتی ہے اور اسے کبیرہ گناہ شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ تقدیر اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے ایک ’’سِر‘‘ ہے اور یہ ان امور میں سے ہے جن کا احاطہ بشری عقل نہیں کرسکتی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جتنے بھی غیبی امور ہیں ان میں کٹ حجتی، مجادلہ و مناظرہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہیں۔اس لیے کہ اکثر طور پر مناظرہ کا انجام دوسرے فریق پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے حجت بازی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو حرام کہا گیا ہے۔ بعض مواقع پر جہاں دین اسلام کا غلبہ، حق کا اظہار، سنت کا بیان اور لوگوں کی اصلاح مقصود ہو، یا ایسا وقت آجائے کہ لوگوں حق کے نام پر باطل کو ہوا دے رہے ہوں، اور اسے عوام الناس میں پھیلا رہے ہوں، تو عوام کو جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کے لیے وہاں مجادلہ وہ مناظرہ حسن ِ اسلوب اور حکمت کے ساتھ ان لوگوں کے لیے جائز ہے جو اہل ِ علم ہوں،اور اس فن پر دسترس رکھتے ہوں، اور ان میں اتنی استعداد ہو کہ وہ درست جواب دے سکیں۔لیکن ’’مَرَائُ‘‘ یعنی کٹ حجتی ہر حال میں ممنوع ہے۔ اس لیے کہ کٹ حجتی میں ایک فریق دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے خواہ وہ حق پر ہو یا نہ ہو۔