کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 304
واحد ظن(گمان) کا فائدہ دیتی ہے۔ ان کا یہ کہنا اور ایسے تفریق کرنے سرسے سے باطل ہے۔ اس لیے کہ ہر وہ حدیث جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوجائے، وہ علم کا فائدہ دیتی ہے، خواہ وہ خبر واحد ہو یا متواتر۔ صحیح حدیث سے استدلال کرنے میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی۔ اس پر بغیر کسی تفریق کے عمل کرنا بھی واجب ہوجاتا ہے۔ 6-: راویوں میں طعن: یہ ردِحدیث اور اس کے انکار کی بڑی اوراہم اقسام میں سے ہے۔ اس لیے کوئی بھی فرقہ ایسا نہیں ہے جس کی رائے سنت کے خلاف ہو، مگر وہ لوگ احادیث کے راویوں میں طعن کرتے ہیں۔ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو عام راوی تو دورکی بات ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ جیسے کہ جہمیہ اور رافضہ، خوارج اور قدریہ، جبریہ اور معتزلہ وغیرہ۔اور بعض صحابہ کے بعد کے راویوں پر طعن کرتے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے اس دور میں کچھ لوگ ایسے بھی اٹھے ہیں جنہوں نے براہ ِ راست حدیث پر طعن کرنے کے لیے ان کے جامع محدثین جیسے کہ امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہم پر طعن و تشنیع شروع کردی اور یہ کہنا شروع کیا کہ تیسری صدی میں آنے والے فارسیوں کو حدیث کا کیا پتہ ؟۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قوم کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کے لیے شکوک و شبہات کے نئے دروازے کھول دیتا ہے، ورنہ اگر ان محدثین و مؤرخین کو نکال دیا جائے جن پر صدر ِ اسلام سے لے کر آج تک کے عرب و عجم تمام علماء کا اتفاق و اعتماد ہے، تو پھر اسلام میں کیا باقی رہ جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلام شخصیت پرستی کا قائل نہیں، بلکہ یہاں پرعدل و تقوی اور علم کی بات کی جاتی ہے، جو ان علمائے کرام میں بدرجہء اتم موجود تھا،اور الحمد للہ انہوں نے دین کی حفاظت کی ذمہ داری نبھائی اور قیامت تک لوگ ایسے آتے رہیں گے، دین کی تعلیم کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ 7-: جھوٹا تصوف: گمراہی کے اسباب اور رد ِ حدیث کی راہوں میں سے ایک راہ جھوٹا تصوف بھی ہے۔ بعض جاہل گمراہ صوفی اپنے ماننے والوں /معتقدین کو یہ باور کراتے ہیں کہ احکام ِ شریعت عوام الناس کے لیے ہیں اوران کے لیے ذوق اور وجد ہے۔ یہ لوگ قرآن و سنت نہ ہی سیکھتے ہیں، اور نہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں، بلکہ کہتے ہیں: ہم براہ راست اپنے رب سے تعلیمات لیتے ہیں۔ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکام جاننے کے لیے کسی واسطہ کی ضرورت نہیں۔ ایسا کہنے سے اصل مقصود خود کو اسلام کے لبادے میں رکھ کر امت محمد سے باہر کرنا ہے۔ تاکہ لوگوں کو دھوکہ بھی دیا جاسکے، اور اپنا مقصد بھی حل ہوجائے۔ اس لیے بعض علمائے کرام نے لکھا ہے: ’’اگر کسی کو ہواؤوں میں اڑتا یا سمندر میں چلتا بھی دیکھ لو تب بھی اس کے اہل اللہ ہونے کی گواہی نہ دو جب تک کہ اس کو سنت پر نہ پرکھ لو۔‘‘اگر اس کے اعمال سنت کے مطابق ہیں، تو یہ اس کی کرامت ہوسکتی ہے اور اگر اس کے اعمال سنت کے مطابق نہیں تو یہ شیطانی عمل ہے، جس سے مقصود لوگوں میں اپنا مقام پیدا کرکے انہیں گمراہ کرنا ہے۔