کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 289
سب سے پہلے یہ کہ، مردے مطلق طور پر سب کچھ سنتے ہیں۔ یہ مرجوح قول ہے۔ وہ مطلق نہیں سنتے۔ بلکہ ان کا سماع مقید ہوتا ہے۔ 2۔ ایسے ہی یہ کہنا کہ مردے زندوں کو جواب بھی دیتے ہیں، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ سوائے انتہائی محدود چند امور کے، جیسے کہ سلام کا جواب دینا۔ 3۔ ایسے ہی یہ کہنا کہ مردے نفع اور نقصان دے سکتے ہیں یہ قول قطعی طور پر باطل اور من گھڑت ہے۔ اس لیے کہ مردے کسی زندہ کو کوئی نفع یا نقصان نہیں دے سکتے اور نہ ہی کسی پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتے ہیں۔ سماع موتی کا مسئلہ اگرچہ سلف ِ صالحین کے دور سے ہی مختلف فیہ رہا ہے۔ تاہم جن لوگوں نے اس کے مطلق اثبات کا کہا ہے انہوں نے کئی باتوں سے استدلال کیا ہے، ان میں سے ایک اہل بدر کا قصہ بھی ہے۔ حضرت مالک بن أنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ’’ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقتولین کو ایسے ہی چھوڑے رکھا۔ پھر ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان پر کھڑے ہو کر انہیں پکار ا،اور فرمایا:’’ اے ابو جہل بن ہشام! اے امیہ بن خلف ! اے عتبہ بن ربیعہ ! اے شیبہ بن ربیعہ ! کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو سچ نہیں پالیا، بیشک میرے رب نے جو میرے ساتھ وعدہ کیا تھا، میں نے اسے سچ پالیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول سنا تو کہا، ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسے سن سکتے ہیں، اور کیسے جواب دے سکتے ہیں ؟ جب کہ یہ مرچکے ہیں۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم ان سے زیادہ وہ کچھ نہیں سن سکتے جو میں کہہ رہا ہوں۔ لیکن وہ جواب دینے کی قدرت نہیں رکھتے۔پھر ان کے بارے میں حکم دیا گیا کہ انہیں کھینچ کر بدر کے کنوئیں میں ڈال دیا جائے۔ ‘‘ [1] اور ایسے ہی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب احد کو مخاطب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ زندہ ہیں، اور فرمایا کہ، کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ان پر سلام کرتا ہے، مگر یہ اس کا رد کرتے ہیں، یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ امام بہیقی رحمہ اللہ نے السنن الکبری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل کی ہے، آپ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب تمہارے بھائی احد میں شہید ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں ڈال دیا، وہ جنت کی نہروں پر وارد ہوتے ہیں، اوراس کے پھلوں سے کھاتے ہیں، اور پھر عرش کے ساتھ معلق سونے کی قندیلوں میں ٹھکانہ بنا لیتے ہیں اور انہوں نے اتنا عمدہ کھانا پینا اور ٹھکانہ پایا، توکہا: ہماری خبر ہمارے بھائیوں تک کون پہنچائے گا کہ ہم زندہ ہیں، اور روزی دیے جاتے ہیں، تاکہ وہ جہادسے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ سے نہ بھاگیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ میں تمہاری طرف سے یہ بات پہنچاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں،
[1] صحیح مسلم، کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمہا، باب، عرض مقعد المیت من الجنۃ أو النار علیہ(2874)۔