کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 286
روایت میں ہے، ((صلی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم علی النجاشي صلاۃ الغائب، و کبَّر أربعاً))[1] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیریں کہیں۔‘‘ یہاں مصنف رحمہ اللہ نماز جنازہ کی مختلف صورتوں میں سے ایک کو ترجیح دی ہے۔اس لیے کہ نماز جنازہ کی کئی صورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، اور کسی بھی مسلمان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی دوسری سنت پر عمل کرنے والے پر ردّ اور تنقید کرے۔ اس لیے کہ ہر وہ فعل جس کی مختلف صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوں، اور ان میں سے کسی ایک کے خاص ہونے کی کوئی دلیل یا نص نہ ہو، تو وہ اپنے عموم ِجواز پر باقی رہے گی۔ جیسے کہ نماز خوف، اس کی کئی صورتیں ہیں۔ ایسے سورج گرہن اور چاند گرہن کی نمازیں ان کی کئی صورتیں ہیں۔ایسے ہی نماز جنازہ بھی ہے۔ اس کی کئی صورتیں جن کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے، مگر راجح یہی ہے کہ چار تکبیریں کہی جائیں، اوراس پر امت کا آج تک عمل چلا آرہا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، ’’ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نجاشی کے مرنے کی خبر اسی دن پہنچی جس دن اس کا انتقال ہوا تھا۔ آپ لوگوں کو لے کر جنازہ گا ہ کی طرف گئے، صفیں بنائی گئیں، اور آپ نے چار تکبیر نماز جنازہ پڑھی۔ ‘‘[2] جنازہ پر نو تکبیروں تک کہنا جائز ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنے کا ثبوت موجود ہے۔[3] مگر کسی عالم یا طالب کے لیے جائز نہیں ہے کہ شاذ یا متروک العمل روایات لے کر ان کے مطابق زیادہ تکبیریں کہنی شروع کردے، اور لوگوں کو تشویش میں مبتلاکردے۔ اس لیے کہ لوگ چار تکبیروں پر چل رہے ہیں، اور یہی ان کی عادت بن گئی ہے، اور اسی پر اجماع بھی ہے۔ اہل علم اس کی پابندی کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ ہم سے زیادہ علم، تقوی اور فہم و فراست والے تھے۔ اگر ایسا کرنے میں کوئی خیر ہوتی تو وہ ضرور اس پر عمل کرتے۔ مگر کہیں بھی آج تک ایسا نہیں ہوا۔ جب تک لوگ ایک سنت پر عمل کررہے ہوں تو کوئی دوسری روایت لاکر ان میں اضطراب اور ہیجان پیدا کرنابالکل نا جائز ہے۔ فقہاء کرام اور محدثین نے ان روایات کا علم رکھنے اور اس مسئلہ کو تحریر کرنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا۔ لہٰذا ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے کامیابی اسی میں ہے۔
[1] بخاری (1188)، مسلم (951)۔عن أبي ہریرۃ۔ [2] اسے بخاری نے روایت کیا ہے، کتاب الجنائز باب، التکبیر علی الجنازۃ أربعاً، ۔ ومسلم (951) کتاب الجنائز، باب التکبیر علی الجنازۃ ۔‘‘ [3] دیکھیں،’ ’ المجموع‘‘ للنووی (5/211)، اور ’’ شرح السنۃ،، للبغوی (5/ 341)، و ’’سبل السلام ‘‘ للصنعانی (2/143) و ’’ زاد المعاد ‘‘ لابن القیم (1/507-509)و أحکام الجنائز للألبانی (ص 111-114)۔