کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 284
تقدیر کا انکار کرنے لگے۔ حالانکہ تقدیر کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ایک علیحدہ معاملہ ہے، اور کسی چیز کا اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہونا دوسرا معاملہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ ہی شر کو پسند کرتے ہیں، اور نہ ہی اس پر راضی ہوتے ہیں، مگر اسے اللہ تعالیٰ نے بندوں کی تقدیر میں لکھ دیا ہے، جوکہ ان کا امتحان اور ان کے اعمال کا بدلہ ہے۔ زمینوں اور آسمانوں کی اصل بادشاہی اس کے ہاتھ میں، اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم کا پابند ہے اور اس کی مرضی اور چاہت کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ﴿اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ ﴾(الاعراف،54) ’’ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی(اسی کا ہے) یہ اللہ رب العالمین بڑی برکتوں والا ہے۔‘‘ اس پیرائے میں معتزلہ پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ انسان اپنے افعال کا خالق ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ﴾(الصافات، 96) ’’حالانکہ تم کو اور تمہارے اعمال کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔‘‘ ایسے ہی مختلف مصائب و پریشانیوں میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی رہنا بھی صبر اور تقدیر پر ایمان کا حصہ ہے۔ مثال کے طور پر اولاد کا والدین، والدین کا اولاد اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ، پیار ومحبت، شفقت اور الفت انسانیت کا ایک اہم تعلق ہے۔یقیناً اقارب کی جدائی کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ دل ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے، اس موقع پر صبر کرنا، گریہ وزاری، آہ وبکا سے پرہیز،رونے دھونے اور ماتم سے اجتناب اور اللہ کی رضا پر کامل رضامندی ایمان اور حسن ِ اسلام کی نشانی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے بے بہا اجر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾(الزمر، 10) ’’بے شک صبر کرنے والوں کوان کا اجر بغیر حساب کے پورا پورا دیا جائے گا۔‘‘ مصنف رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا پیرایہ میں قدر کے مباحث کی طرف او ران لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو ’’قدر‘‘ کے متعلق گمراہی کا شکار ہوگئے، جیسے کہ قدریہ اور جبریہ اور غالی فرقے۔ اللہ کے فیصلہ پر راضی رہنا اوراس کے حکم پر صبر کرنا ایک عام حکم ہے۔ انسان پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے لکھے گئے فیصلہ پر راضی رہے، اورا س کے حکم پر صبر کرے۔اس میں کمزور ایمان والے لوگوں کے لیے تذکیر اور وعظ و نصیحت ہے، اس لیے کہ کمزور ایمان کی وجہ سے ہی یہ برائیاں جنم لیتی ہیں۔ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان،(اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور خالق نہیں)، یہ بھی مراتب قدر کے تابع ایک جملہ ہے۔ اس جملہ میں ان لوگوں پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ انسان اپنے فعل کا خالق خود ہے۔ بیشک اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہرقسم کی مخلوق،اور اچھے اور برے افعال کا خالق ہے۔ اس کے ساتھ کوئی اور خالق