کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 276
’’میں مشرکین کے شرک سے بری ہوں، جس نے ایسا عمل کیا جس میں اس نے میرے ساتھ کسی اور کوشریک ٹھہرایا میں اسے اور اسکے شرکیہ عمل کوچھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ ذیل کے پیرائے میں مصنف رحمہ اللہ اسی نیت کے مسئلہ کو بیان کررہے ہیں۔ 61۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ((و إخلاص العمل للّٰه۔)) ’’اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص عمل(اہل سنت و الجماعت کے ایمان کا حصہ ہے)۔‘‘ قبولیت اعمال کی شرائط شرح، …اخلا ص ہر عمل کی اصل بنیاد اور اس کا نچوڑ ہے۔ اخلاص ِ نیت کے بغیر اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان کا کوئی عمل قبول نہیں فرماتے۔یعنی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال قبول ہونے کا پہلی شرط اخلاص ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ وَذَلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ﴾(البینہ، 5) ’’اور انہیں اسی چیز کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ پورے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں، اور یہ کہ وہ نماز قائم کریں اورزکوٰۃ ادا کریں، یہی پکا دین ہے۔‘‘ احادیث میں بھی اخلاص نیت کی بڑی اہمیت آئی ہے، اور اسے تمام نیک اعمال کے لیے بنیادقراردیا گیاہے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ((إنما ا لأعمال بالنیات،وإنما لکل امریء ما نوی، فمن کانت ہجرتہ إلی اللّٰه ورسولہ فہجرتہ إلی اللّٰه ورسولہ، ومن کانت ہجرتہ لدنیا یصیبہا، أو امرأۃ ینکحہا، فہجرتہ إلی ما ہاجر إلیہ))(متفق علیہ) ’’بیشک اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ہر انسان کے لیے وہی ہے جس چیز کی اس نے نیت کی۔پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو، اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی، اور جس نے اس غرض سے ہجرت کی کہ وہ دنیا کا کچھ سازوسامان پائے، یا کسی عورت سے شادی کرے، تو اس کی ہجرت اسی طرف ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔‘‘ دوسری شرط،اعمال قبول ہونے کی دوسری شرط سنت کا اتباع ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ عمل سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو، اس میں اپنی طرف سے کسی بدعت یاخرافات کی ملاوٹ نہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بدعت کو قبول نہیں کرتے، بلکہ اس پر معاقبہ ہوگا، اور سزا ملے گی۔