کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 265
فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ o فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ وَ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ﴾(البقرہ، 229۔230) ’’یہ طلاق(رجعی) دوبار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمھارے لیے حلال نہیں کہ اس میں سے جو تم نے انھیں دیا ہے کچھ بھی لو، مگر یہ کہ وہ دونوں ڈریں کہ وہ اللہ کی حدیں قائم نہیں رکھیں گے۔ پھر اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہیں رکھیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو عورت اپنی جان چھڑانے کے بدلے میں دے دے۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں، سو ان سے آگے مت بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے گا تو یہی لوگ ظالم ہیں۔ پھر اگر وہ اسے(تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے، پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو(پہلے) دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں آپس میں رجوع کر لیں، اگر سمجھیں کہ اللہ کی حدیں قائم رکھیں گے، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں، وہ انھیں ان لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے جو جانتے ہیں۔ ‘‘ صحیح مسلم ؍ جلد اول ؍ ص، 477 میں ہے، ’’ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دونوں دوروں میں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہوا کرتی تھیں … الحدیث‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا ایک ہی مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں ایک طلاق ہے تو اگر یہ تیسری طلاق نہیں تو عدت کے اندر رجوع بلا نکاح اور عدت کے بعد نیا نکاح مطلقہ بیوی کے ساتھ درست ہے۔ قرآن مجید میں ہے، ﴿وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ﴾(البقرہ، 232) ’’اور جب طلاق دو تم عورتوں کو پس پہنچیں عدت اپنی کو پس مت منع کرو ان کو یہ کہ نکاح کریں خاوندوں اپنے سے جب راضی ہوں آپس میں ساتھ اچھی طرح کے۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے ابتدائی دور خلافت میں اکٹھی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ بعد میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی جلد بازی کو دیکھتے ہوئے حکم دیا کہ تین اکٹھی دی جانے والی طلاقوں کو تین شمار کیا جائے۔ یہ حکم وقتی طور پر انہیں تنبیہ کرنے کے لیے اور اس طرزِ عمل سے روکنے کے لیے تھا۔ مگر بعض علماء ابھی تک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس وقتی طور پر دئیے گئے حکم پر ہی عمل کرتے ہوئے تین اکٹھی دی جانے