کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 263
وفي الترمذي،((البغایا اللاتي ینکحن أنفسہن بغیر بینۃ))[1] ترمذی میں ہے، ’’زانیہ وہ عورتیں ہیں جو اپنا نکاح بغیر کسی گواہی کے کرتی ہیں۔‘‘ بیہقی(باب، الشہادۃ في الدین وما في معناہ)میں ہے، ((لا نکاح إلا بولي و شاہدي عدل)) ’’ ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا۔‘‘ دوسری روایت میں ہے، ((لا تزوج المرأۃُ المرأۃَ و لا تزوج المرأۃ نفسہا، فإن الزانیۃ ہي التي تزوج نفسہا))[2] ’’ کوئی عورت کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کرے، اور نہ ہی کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے، بیشک زانیہ وہ عورت ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے۔‘‘ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان،(جس کا کوئی ولی نہ ہو، …)، سنن الصغری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جائے گا، جب اس کا نکاح-بغیر ولی کے-کیا گیا تو یہ اس کا نکاح باطل ہے، آپ نے تین بار یہ فرمایا۔ اگروہ اس کے ساتھ صحبت کرلے، تواس کا مہر ادا کرے گا، اور اگر ان کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو حاکم اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں ہے۔‘‘ [3] امام صاحب(ابو حنیفہ رحمہ اللہ) اور ان کے پیروکاروں رحمۃ اللہ علیہم نے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے نکاح میں ولی کاہونا شرط نہیں رکھا۔یہاں پر اعتبار دلیل کاہے، نہ کہ اکابر پرستی کا۔ وہ لوگ اپنے اجتہاد میں اللہ تعالیٰ کے ہاں ماجور ہیں۔ مگر دلیل ان کے عکس(خلاف) ہے، لہٰذا ان کی رائے اور علمی منزلت و منصب کا پوراپورا احترام کرتے ہوئے، اسے مانا نہیں جائے گااور جس عورت کا کوئی ولی نہ ہو، حاکم وقت یا اس کا نائب اس عورت کا ولی ہوگا، وہ اپنی ولایت سے عورت کی شادی کرے گا۔ اسی طرح عورت کا مہر مقرر کیا جانا بھی ضروری ہے۔ اس کی مقدار متعین نہیں ہے۔ جس عورت کا مہر مقرر کیے بغیر نکاح کردیا جائے تو اسے مہر ِ مثل ادا کیا جائے گا۔ مہر مثل یہ ہے کہ اس کی بہنوں، یا والدہ یا خالہ وغیرہ کا جتنا مہر ہوگا، اتنا ہی مہر اس عورت کابھی تصور ہوگا۔
[1] باب، لا نکاح إلا ببینۃ، ح، 1103۔ [2] صحیح/ابن ماجۃ (1882)،صحیح الجامع (7298)۔ [3] ح،2470۔باب، لا ولایۃ لوصي في نکاح ۔ ابو داؤد، باب، في الولي، ح، 2085۔ قال الألباني صحیح۔