کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 250
رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم کیف الحج ؟ فأمر رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم رجلًا فنادی،((الحج الحج یوم عرفۃ من جاء قبل صلاۃ الصبح من لیلۃ جمع فتم حجہ، أیام منی ثلاثۃ [ثم تلا]، ﴿فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ﴾ قال ثم أردف رجلا خلفہ فجعل ینادی بذلک)) [1] ’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، آپ عرفہ میں تھے۔تو آپ کے پاس کچھ لوگ یا ایک جماعت اہل نجد میں سے آئی۔ انہوں نے ایک آدمی سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے حج کیسے ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو حکم دیا، اس نے آواز لگائی کہ حج، حج عرفہ کے دن ہے اور جو کوئی مزدلفہ کی رات نماز فجر سے پہلے(عرفات میں) آگیا، اس کا حج پورا ہوگیا۔منی کے تین دن ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی، ﴿ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ﴾(البقرۃ، 203) ’’پھر جو شخص جلدی کر کے دو ہی دن میں(منا سے) چل دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں اورجو تیرہ تاریخ تک ٹھہرا رہے اس پر بھی کچھ گناہ نہیں ‘‘ پھر آپ نے اپنے پیچھے ایک آدمی کو سوار کرلیا، جو اس کی آواز لگا رہا تھا۔‘‘ حاجی میدان عرفات میں اللہ تعالیٰ کے سامنے حالت احرام میں عاجزی و انکساری کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس پر فخر کرتے ہیں، اور فرشتوں پر اسے جتلاتے ہیں، اور اپنے بندے کے گناہ معاف کردیتے ہیں اگرچہ وہ ریت کے ذروں کے برابر اور بارش کے قطروں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت نقل کرتے ہیں، جس میں ہے، ((أما وقوفک عشیۃ عرفۃ، فإن اللّٰه یہبط إلی السماء الدنیا، فیباہي بکم الملائکۃ، ویقول،((عبادي جاؤوني شعثاً من کل فج عمیق، یرجون رحمتي، فلوکانت ذنوبکم کعدد الرمل، أو کقطر المطر، أو کزبد البحر لغفرتہا، أفیضوا عبادي مغفو راً لکم و لمن شفعتم))[2] ’’ اورتمہارا عرفہ کی شام وقوف کرنا، سو بیشک اللہ تعالیٰ(اس وقت) آسمانی دنیا پر نازل ہوتے ہیں، اور
[1] سنن بی داؤود، قال أبو داؤود وکذلک رواہ مہران عن سفیان قال، (الحج الحج)۔ مرتین ورواہ یحی بن سعید القطان عن سفیان قال،(الحج)مر ۃ۔ والنسائی، باب، فرض الوقوف بعرفۃ، ح، 3016۔ قال الشیخ الألبانی، صحیح۔ورواہ امام مالک في الموطا، باب، من أدرک عرفۃ لیلۃ مزدلفۃ، ح، 509۔ [2] رواہ ابن حبان برقم 1887، البراز برقم 1082، الطبراني في الکبیر برقم، 13566، وحسنہ الألباني في صحیح الترغیب والترہیب 2/ 36۔ ذکرہ المنذري في الترغیب والترہیب 2/ 157، برقم 1737، وعزاہ جازماً إلی ابن مبارک و وصححہ لغیرہ الألباني في صحیح الترغیب و الترہیب، وقال، ولہ شواہد خرجتہا في ’’الصحیحۃ ‘‘ برقم 1624۔