کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 249
فرماتے ہیں: ’’ ہے کوئی بخشش مانگنے والا اسے بخش دیا جائے، اور ہے کوئی دعا کرنے والا جس کی دعا کوقبول کیاجائے ؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا، جس کی توبہ کوقبول کیا جائے ؟ فجر تک یہ ایسے ہی رہتا ہے۔‘‘[1]
اللہ تعالیٰ کا آسمانی دنیا پر نازل ہونا اپنی حقیقت کے مطابق حق ہے،اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو خبر دی ہے وہ بھی حق ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے بارے میں یا کسی اور کے متعلق صرف حق بات ہی کرتے ہیں۔ہم پر واجب ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے اس معنی کو اس کی اپنی حقیقت میں ایسے ہی تسلیم کریں جیسے اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہے۔ اب لوازم کا بہانہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی صفت ِ نزول کا انکار کرنا مؤمن کے لیے جائز نہیں ہے۔اس لیے کہ لوازم یہ دنیا میں بشری احکام سے متعلق ہیں، جن کا وقوع عالم ِ شہادت اور تصورات بشر میں ہے۔ لیکن ان میں سے کسی ایک چیز کا بھی حکم اللہ تعالیٰ کے بارے میں نہیں لگایا جاسکتا۔
دوسری بات کہ ان لوازم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کرنا اس کی ذات کے بارے میں بغیر علم کے کوئی بات کہناہے، اور اس پر ایسی چیز کا لازم کرنا ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اہل ِ تأویل کا یہ کہنا کہ ’’نزول سے اللہ تعالیٰ کے عرش کا خالی ہونا لازم آتا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے نزول فرما لیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایسی چیزیں لازم کرنا اس پر بغیر علم کے بات کہنا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ ان باتوں سے منزہ ہیں۔
عرفہ کے دن نزول
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((وَ یَنْزِلُ یَوْمَ عَرْفَۃَ۔))[2] ’’اور عرفہ کے دن نازل ہوتے ہیں۔‘‘
شرح، … وقوف عرفہ حج کے ارکان میں سے ہے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الحج عرفۃ‘‘حج وقوف عرفہ ہے۔
حضرت عبد الرحمن بن یعمر الدیلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:
((أتیت النبی صلي اللّٰه عليه وسلم وہو بعرفۃ فجاء ناس أو نفر من أہل نجد فأمروا رجلا فنادی
[1] مسلم [758]، أحمد [3/383]۔
[2] صحیح ابن حبان، باب، صفۃ الصلاۃ، ح،1887۔صحیح ابن خزیمۃ، باب، تباہي اللّٰه أھل السماء بأہل عرفات، برقم 2840۔شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ3/450، روایت نمبر767، عن أم سلمۃ رضی اللّٰه عنہا۔المعجم الکبیر روایت نمبر 13566۔صحیح ابن حبان، ح، 1887، من حدیث ابن عمر،و ابن خزیمۃ من روایۃ جابر، ح، 2840۔أخرجہ ابن مندہ فی ’’ التوحید‘‘ (1/147)، و أبو الفرج الثقفی في ’’ الفوائد ‘‘ (2/78، 1/ 92)، کمافي’’ السلسلۃ الضعیفۃ ‘‘ (679)، و البغوي في’’شرح السنۃ ‘‘ (1/159)، من طریق مرزوق مولی طلحۃ، عن أبی الزبیر عن جابر بہ مرفوعاً۔‘‘و لہ طریق أخری من حدیث جابر أیضاً، وإسنادہ ضعیف، کما في’’ السلسلۃ الضعیفۃ ‘‘ (2/125- 126)۔
لیکن ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے ۔ اسے دارمی نے ’’ الرد علی الجہمیۃ‘‘ (137) میں روایت کیا ہے اور ابو عثمان صابونی نے ’’ عقیدۃ السلف‘‘ میں، اور دار قطنی نے ’’ النزول ‘‘ (95-96) میں، اور لالکائی نے ’’ شرح السنۃ‘‘(768) میں، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے موقوفاً روایت کیا ہے اور اس جیسی بات اپنی رائے سے نہیں کہی جاسکتی، اس لیے یہ مرفوع کے حکم میں ہے ۔