کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 246
’’ یا اللہ دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنی اطاعت کے لیے پھیر دے۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے،
((یا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دینک و طاعتک))[1]
’’اے دلوں کو پھیرنے والے ! میر ے دل کو اپنے دین اور اطاعت پر ثابت رکھ۔‘‘
آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جاتا، یارسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بارے میں گھبراتے ہیں، اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام پر ایمان لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے،
’’بیشک مخلوق کے دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان میں ہیں۔ اگروہ چاہتا ہے تو ایسے ہوتا ہے، اور اگر وہ چاہتا ہے تو ایسے ہوتا ہے۔‘‘[2]
ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری احادیث ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ، پاؤں او رانگلیوں کا ہونا ثابت ہوتاہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں یہ بات ثابت ہے تو واجب ہوتا ہے کہ ہم اس پر ایسے ہی اس کی حقیقت کے مطابق ایمان لائیں، اور یہ یقین کرلیں کہ اس کا معنی وہی حقیقی ہے جواحادیث کے الفاظ میں وارد ہوا ہے۔مگر ایسے ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی شان ِ جلال و کمال کے لائق ہے اور یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے صفات کمال کا اعتراف کریں۔جوکچھ حدیث میں واردہوا ہے اس سے زیادہ گہرائی میں جانے اور اسے کریدنے کی ضرورت اور اجازت نہیں ہے، کیونکہ اس سے شیطان کو شبہات کے دروازے کھولنے کا موقع ملتا ہے اورزیادہ گہرائی میں جانااللہ تعالیٰ سے متعلق غیبی کیفیت کو معلوم کرنے کی کوشش ہے، جب کہ غیب اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، اور نہ ہی کسی کے لیے مناسب ہے کہ وہ ان امور کو جاننے کے لیے ناجائز اور غیر شرعی طریقے استعمال کرے۔ بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے انگلی کا ہونا ثابت ہے۔ مگر اس کی کیفیت ہر گز بیان نہیں کی جاسکتی۔
مذکورہ بالااحادیث اللہ تعالیٰ کی صفات اور افعال سے متعلق ایک عظیم الشان قاعدہ ہیں۔جس کی طرف شیخ نے اشارہ کرتے ہوئے اس کی مثالیں بیان کی ہیں۔اور اس میں مصنف رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ سے متعلق غیبی امور کے بارے میں سلف ِ صالحین کے منہج کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ ان امور کے اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنے کے قواعد کا خلاصہ یہ ہے کہ،
صفات الٰہی کے متعلق قاعدہ
ہر وہ چیز جواللہ تعالیٰ کے متعلق قرآن میں وارد ہوئی ہے، یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث سے ثابت ہے، خواہ اس
[1] صحیح، أخرجہ الترمذی 1240، وابن ماجہ 3834، والحاکم فی المستدرک 1927۔ وقال الألبانی، صحیح ۔ صحیح الجامع 7987۔
[2] رواہ أحمد 3/ 112، والترمذی [2141]، صححہ الألباني في صحیح الأدب المفر د [527]۔