کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 236
’’یاد رکھو! اہل قبلہ وہی لوگ ہیں جو ضروریات و مہماتِ دین مثلًا، حدوثِ عالم، حشر جسمانی، ہر ہر کلی و جزئی پر علم الٰہی کے محیط ہونے اور اسی قسم کے اہم اور بنیادی مسائل میں اہل حق کے ساتھ متفق ہوں۔چنانچہ جو شخص تمام عمر شرعی احکام و عبادات کی پابندی کرتا رہے مگر عالم کو قدیم مانتا ہو یا حشر جسمانی کا انکار کرتا ہو یا اللہ تعالیٰ کو جزئیات کا عالم نہ مانتا ہو، وہ ہر گز اہل قبلہ میں سے نہیں ہے۔(وہ توبلا اختلاف سب کے نزدیک کافر ہے)۔ نیز علماء اہل سنت کے نزدیک کسی اہل قبلہ کو کافر نہ کہنے کا مطلب یہی ہے کہ، کسی کو اس وقت تک کافر نہ کہا جائے جب تک کہ اس میں کوئی کفر کی علامت یعنی کوئی کفریہ قول یا فعل نہ پایا جائے اور کوئی موجب ِ کفر امر اس سے سرزد نہ ہو(گویا کسی مسلمان سے اگر کوئی بھی کفریہ قول یا فعل سرزد ہو یا اس میں کوئی بھی علامت کفرکی پائی جائے تو وہ اہل قبلہ سے خارج اور کافر ہوجاتا ہے اگرچہ وہ خود کو مسلمان کہتا رہے اور مسلمانوں کی طرح عبادات و احکامِ شریعت کا پابند بھی ہو۔‘‘[1]
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
’’کشف‘‘[2]شرح ’بزدوی‘‘ میں اجماع کے تحت اور آمدی کی کتاب ’’الاحکام‘‘[3]میں ’’مسئلہ سادسہ‘‘ کے تحت بعینہ یہی تحقیق مذکور ہے۔علامہ شامی[4] رحمہ اللہ ’’رد المحتار‘‘ میں مسئلہ ’’امامت‘‘ کے تحت اور ج، 1 ص، 622 مسئلہ ’’انکارِوتر‘‘ کے تحت فرماتے ہیں، ’’اس شخص کے کافر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں جو ضروریاتِ اسلام(دین کے یقینی اور قطعی عقائد و احکام) کا مخالف ہو اگرچہ وہ اہل قبلہ میں سے ہو اور ساری عمر عبادات و طاعات کا پابند رہا ہو، جیسا کہ(شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ نے)[5] ’’شرح تحریر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘(صاحب البحر الرائق رحمہ اللہ) نے فرمایا کہ، حاصل یہ ہے کہ حنفیہ کے اس قول کی مراد کہ،’’کسی اہل حق کے مخالف شخص یا فرقہ کو کافر نہ کہا جائے‘‘ یہ ہے کہ وہ شخص یا فرقہ ان مسلمہ اصولوں کا مخالف نہ ہو جن کا دین ہونا معروف اور یقینی ہے، اس کو اچھی طرح سمجھ لو۔‘‘
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور اہل قبلہ کی تکفیر مسئلہ
ابن عابدین(علامہ شامی رحمہ اللہ) کی ’’شرح منحتہ الخالق علی البحرالرائق ‘‘ ج 1 ص،371 باب الامامۃ میں ذیل کی تصریح امام صاحب کے قول کی تصریح میں وارد ہوئی ہے،
((وحرر العلامۃ نوح آفندی أن مراد الامام بما نقل عنہ ما ذکرہ فی’’الفقہ الاکبر من عدم التکفیر بالذنب، الذی ھومذھب أھل السنۃ والجماعۃ، تأمل۔)) 5
[1] ’’شرح فقہ اکبر‘‘ ص 185 ۔
[2] ’’کشف‘‘ شرح ’بزدوی‘‘ ج3 ص 238 ۔
[3] ’’الاحکام‘‘ ج 1ص 326 ۔
[4] ’’رد المحتار‘‘ ج 1 ص377، طبع جدید 1324ھ ص524 ۔
[5] ’’شرح تحریر‘‘ ص 525۔