کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 232
اہل قبلہ کی تکفیر کا حکم 50۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ((ولایخرج من أہل القبلۃ من الإسلام حتی یرد آیۃ من کتاب اللّٰه [عزوجل]، أو یردّ شیئاً من آثار رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم، أو یصلي لغیر اللّٰه، أو یذبح لغیر اللّٰه، وإذا فعل شیئاً من ذلک، فقد وجب علیک أن تخرجہ من الإسلام۔ ’’اہل قبلہ میں سے کوئی انسان اس وقت تک اسلام سے خارج نہیں ہوتا جب تک وہ کتاب اللہ کی کسی آیت یا کسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکارکردے۔ یاغیر اللہ کے لیے نماز پڑھے یا غیر اللہ کے لیے ذبح کرے۔ جب وہ ان کاموں میں سے کوئی ایک کر ے گا، تو واجب ہوتا ہے کہ اسے خارج از اسلام شمار کیا جائے۔[ جب تک وہ ایسا نہیں کرے گا تو وہ نام کا مؤمن اور مسلمان ہی رہے گا، حقیقت میں نہیں]۔‘‘ شرح، … کسی ایک آیت یا حدیث کا انکار کرنا ایسے ہی ہے جیسے سب آیات اور احادیث کاانکار کرنا۔ مراد یہ ہے کہ آیت یا آیت کے مقتضی کو رد کرے۔ اس لیے کہ جو انسان صریح طور پر آیت کا ہی انکار کرتا ہے تو اس کے کافر ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے، اگرچہ وہ اس کے معانی کا انکار نہ بھی کرے۔اسی طرح دوسری اہم ترین چیز آیت کی ایک حقیقت یعنی اس کی’’ تفسیر ‘‘بھی ہے۔ سو جب اس آیت کے معانی لازمہ، جو ضرورت کے تحت معلوم اور طے شدہ ہیں، کا انکاربھی جوکوئی کر ے گا تو بھی کافر ہوجائے گا۔ ایسے ہی جو شخص کسی ایسی چیز کا انکار کرے، جس کا معلوم ہونا ضروری ہو، خواہ وہ قرآن سے ثابت ہو یا حدیث سے، اس کے انکارکی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اس پیرائے میں دو قسم کے لوگ مقصود ہیں جو کہ اہل سنت و الجماعت کے منہج کے مخالف ہیں، خوارج، اور غالی فرقے جو کبیرہ گناہ کی وجہ سے کفر کا فتوی لگاتے ہیں۔ مرجئہ، جو کہتے ہیں کہ جب تک انسان اپنے دل میں مؤمن ہے، تو ایمان کے ساتھ برائی کا کوئی بھی عمل نقصان نہیں دے گا اور نہ ہی نیک اعمال کا ترک کردینا نقصان دہ ہوگا اگرچہ وہ اسلام کا کوئی ایک کام بھی نہ کرے۔ جب کہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ان کے درمیان میں ہے۔ یہ کبیرہ گناہ کی وجہ سے کسی کو کافر بھی نہیں کہتے، جب تک کہ اس میں کفر و شرک نہ پایا جائے۔ لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ اصلِ ایمان کے باوجود برے اعمال کرنا، یا نیک اعمال ترک کرنا انسان کے ایمان کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لیے کہ ایمان کم ہوتا اوربڑھتا ہے، نیک اعمال کرنے سے بڑھتا ہے، اور برے اعمال کرنے سے کم ہوتا ہے۔ مصنف کا فرمان،(غیر اللہ کے لیے نماز پڑھے…)، یعنی کسی قبر و قبہ پر یا مزار و درگاہ کے سامنے یا بت کے لیے