کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 231
’’ مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اُس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔‘‘ اور حدیث میں ہے، ((الإیمان بضع وسبعون شعبۃ، اعلاھا لا إلٰہ إلا اللٰہ، وأدناہا إماطۃ الأذی عن الطریق، والحیاء شعبۃ من الإیمان)) [1] ’’ ایمان کے ستر اور کچھ درجے ہیں، ان میں سب سے اعلی ’’ لا إلٰہ إلا اللّٰه ‘‘ کا اقرار ہے، اور ادنی درجہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے، حیاء ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ اہل قبلہ کے احکام 49۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((والصلاۃ علی من مات من أھل القبلۃ سنۃ، والمرجوم، والزاني، والزانیۃ، والذي یقتل نفسہ، وغیرہم من أہل القبلۃ والسکران وغیرہ، الصلاۃ علیہم سنۃ۔)) ’’اہل قبلہ میں سے جو کوئی مرجائے اس پر نماز جنازہ پڑھنا سنت ہے،(جیسے کہ) رجم کیا گیا، زانی مرد، زانی عورت۔اور جو انسان خود کشی کرے، اور ان کے علاوہ دیگر اہل قبلہ، اور شرابی، اور ان کے علاوہ(دوسرے گنہگار)، ان پر نماز جنازہ پڑھنا سنت ہے۔‘‘ شرح،… اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے اہل کبائر اپنے اسلامی حقوق میں اصل پر باقی رہیں گے۔یہاں تک کہ وہ اہل بدعت جن کی بدعات شرک سے کم درجہ کی ہیں، ان کا شمار بھی کبیرہ گناہ کے مرتکب لوگوں میں ہوگا، جیسے کہ زانی، چور، خود کشی کرنے والا اور دوسرے گنہگار۔ان کے بھی عام مسلمانوں کی ہی طرح حقوق ہیں، جیسے ان پر نماز جنازہ پڑھنا، ان کو غسل دینا، دفن کرنا، ان کی بخشش کی دعا کرنا، وراثت کی تقسیم وغیرہ۔ لیکن یہاں پر ایک بات کی وضاحت ضروری ہے، کبھی کبھار مسلمان عالم کو، اور ایسے انسان کو جس کی بات مانی جاتی ہو، ان حقوق کے ادا کرنے سے رک جانا چاہیے تاکہ باقی لوگ اسے دیکھ کر گناہوں سے باز آئیں یہ صرف بطور ڈراوے کے، اور برائی کے انکار، اور لوگوں کے لے وضاحت اور بیان کے لیے کیا جاسکتا ہے۔لیکن ایسا کرنے پر لوگوں کو اس آدمی پر نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ مقصود صرف تأدیب اور عبرت ہے۔
[1] رواہ البخاری بلفظ، الإیمان بضع وسبعون شعبۃ، والحیاء من الإیمان۔‘‘کتاب الإیمان، باب، دعائکم إیمانکم، برقم، 9۔ ومسلم باب، شعب الإیمان، برقم،162۔