کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 230
ان سے نکاح وغیرہ ہوگا،نہ ہی ان کی ولایت ہوگی، نہ ہی ان کی نماز جنازہ اور غسل و غیرہ ہوگا، نہ ہی ان کی بخشش کے لیے دعا کی جائے گی، اور نہ ہی ان کا ذبیحہ کھانا جائزہے۔
مؤمن ہونے کی گواہی
48۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
((و لانشہد لأحد بحقیقۃ الإیمان، حتی یأتي بجمیع شرائع الإسلام، فإن قصر في شيئٍ من ذلک، کان ناقص الإیمان حتی یتوب، واعلم [ أن] إیمانہ إلی اللّٰه تعالیٰ، تام الإیمان أو ناقص الإیمان، إلا ما[أ ظہر ] لک، من تضییع شرائع الإسلام۔))
’’ہم کسی کے لیے حقیقت ِ ایمان کی گواہی اس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک وہ تمام اسلامی شرائع پر عمل نہ کرلے۔ اگر وہ ان میں سے کسی چیز میں کمی کرے گا تو ناقص الایمان ہو گا، یہاں تک وہ توبہ کرلے اور جان لیں کہ اس کے ایمان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ خواہ اس نے ایمان کو پورا کیا یا اس میں نقص کیا۔ سوائے اس کے جو آپ کے سامنے شرائع اسلام کے ضیاع کا اظہار کرے۔ ‘‘
شرح، … یعنی کسی بھی سبب کی بنا پر دین میں تفریق کرنے کی اور من پسند کے اختیارکرنے اور باقی کے ترک کرنے کی اجازت نہیں۔
کمال کے مدارج
کسی کے لیے کمال ایمان کی گواہی نہیں دے سکتے جب تک کہ وہ ظاہری طور پر اس کی جملہ شرائط کو پورا نہ کردے۔اور کمال کے دو درجے ہیں، (1)کمال مطلق (2)کمال نسبی
کمال مطلق،…اس کو اللہ عزو جل کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ سوائے اس کے کہ کسی کے لیے دلیل سے یہ بات ثابت ہوجائے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت ہے، اور جبریل امین علیہ السلام کے لیے۔اور جیسے باقی انبیاء اور ان ہستیوں کے لیے ثابت ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے مطلق طور پر تعریف کی ہے۔ان کے لیے کمال ایمان کی گواہی دی جائے گی۔
کمال نسبي،… ان کے علاوہ جتنے لوگ ہیں ان کے لیے کمال نسبی کی گواہی دی جائے گی، مگر اس کے بارے میں حتمی اوردوٹوک طورپر کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اس لیے کہ ایمان کے کئی مراتب ہیں۔ جن کو پورا کرنے سے ایمان بڑھتا ہے، اور ان میں کمی ہونے سے ایمان کم ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیْمَاناً وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ﴾(الانفال،2)