کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 227
علامہ شوکانی رحمہ اللہ ’’السیل الجرار ‘‘ میں یہ بھی فرماتے ہیں:
’’ اعتبار کلمہ کے ظاہر ہونے کا ہے، اگر کسی ملک میں اہل اسلام کے اوامر اور نواہی جاری ہوں، اور وہاں پر موجود کفار اپنے کفر کے اظہار کی طاقت نہ رکھتے ہوں، سوائے اس کے کہ جن باتوں کی مسلمانوں نے ان کو اجازت دے رکھی ہو، تو ایسے ملک کو دار الإسلام کہا جائے گااور اس میں کفریہ خصلتوں کا اظہار نقصان نہ دے گا۔ اس لیے کہ یہ کفار کی قوت سے ظاہر نہیں ہوئیں، اور نہ ہی اس میں ان کی کوئی چارہ گری ہے … اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو تو ’’دار ‘‘ بھی اس کے برعکس ہوگا۔‘‘[1]
دار کی ایک تقسیم وجود امن اور عدم امن کے اعتبار سے بھی ہے، جس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں، حالت جنگ اور حالت امن کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں،
(1) دارالحرب،…جہاں حکومت مسلمانوں کے ساتھ برسرِپیکار ہو، ان کے مال ان کے املاک، اور ان کی جان کو ختم کرنے یا نقصان پہنچانے کے درپے ہو، اور ہاں اسلامی دعوت کو ممنوع قرار دیا گیا ہو، اس ملک کو ’’دارالحرب‘‘ کہا جائے گا، اور اس کو ’’دارالکفر، دارالشرک، دارالمخالفین‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔
(2) دارالامن والعہد،…جہاں حکومت تو اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہو، مگر وہ مسلمانوں کے ساتھ امن کا معاہدہ کرچکی ہو، تو پھر اسے ’’دارالامن یا دارالکفر الآمنہ یا دارالعھد یا دارالکفر المعھودۃ‘‘ کہا جائے گا۔
بعض حضرات ’’ دار حیاد‘‘ بھی ایک قسم قرار دیتے ہیں، ’’دار حیاد‘‘ اس ملک کو کہتے ہیں، جو مسلمانوں کے ساتھ مصلحت کرے، کہ نہ وہ ان سے قتال کریں گے۔ نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کا تعان کریں گے۔شیخ ابوزہرہ اورڈاکٹر وہبہ زحیلی نے یہ قسم الگ شمار کی ہے۔[2]
دارالکفر کی بھی دوقسمیں ہیں، (1) دارالکفر حقیقی (2) دارالکفر حکمی۔
(1)دارالکفر حقیقي، …اس ملک کو کہا جاتا ہے، جہاں پر زمام حکومت غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہو، اور وہاں کا دستورِ اساسی بھی انہیں کا ہو، اور مسلمانوں کو شعائر اسلام بجا لانے کا قطعاً حق نہ ہو، بلکہ حکومت مسلمانوں کو ہلاک کرنے اور نقصان پہنچانے کے درپے ہو، مثلًا، روس جوکہ1992ء سے پہلے اسلام اور مسلمانوں کا کٹر دشمن رہا، اور اس وقت اسرائیل یا برما(میانمار)۔
((دارالکفر حقیقتۃ، ھی التی قصدھا الفقھاء فی تعریفھم لدار الکفر و ھی التی تظھر فیھا احکام الکفر و یحکمھا الکفار و انعدمت فیھا مظاھر الدین تماماً بحیث لم یعد لھا وجود متمیز ولا یوجد فیھا مسلمون یؤدون واجباتھم الدینیۃ۔))[3]
[1] اور اس مسئلہ کی مزید وضاحت کے لیے دیکھا جائے، أحکام الذمیین و المستأمنین في دار الإسلام ‘‘ (ص 18-21)۔
[2] العلاقات الدولیۃ فی الاسلام، ص 48، آثار الرحب، ص 791
[3] تقسم العالم، ص 52