کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 226
چنانچہ کسی ملک یہ کہنا کہ وہ دار الکفر ہے یا دار الاسلام، یا وہاں پر جاری قوانین، قائم حکومت اور لوگوں کے غلبہ کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ نفاذ قوانین کے اعتبار سے حکومت کی دو قسمیں ہیں،
(1) دارالاسلام (2) دارالکفر
پھر دارالاسلام کی بھی دو قسمیں ہیں،
(1) دارالاسلام حقیقی (2)دارالاسلام حکمی
دارالاسلام حقیقی کی تعریف
اس ملک کو کہتے ہیں جہاں دستوری طور پر اسلامی قوانین اور اسلامی احکام نافذ ہوں، اور اس ملک کے قائدین و حکام مسلمان ہوں۔ امام ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
((دارالاسلام ھی التی نزلھا المسلمون و جرت علیھا احکام الاسلام۔)) [1]
’’دار اسلام وہ ہے جہاں مسلمان اترے ہوں، اور وہاں پر اسلامی احکام جاری ہوں۔‘‘
اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
((تعبر الداردارالاسلام بظھور احکام الاسلام فیھا وان کان جل اھلھا من الکفار))[2]
’’کسی ملک کا دار الاسلام ہونا اس وقت معتبر ہوگا جب وہاں پر اسلامی احکام جاری ہوں، اگرچہ وہاں کے رہنے والے اکثر کافر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
دارالاسلام حکمی
اس ملک کو کہتے ہیں جہاں مسلمانوں کو، اپنے بعض شعائر پر عمل کی اجازت ہو، مثلًا نماز، اذان، جمعہ وغیرہ، اگر چہ وہاں عالمی وضعی(خودساختہ یعنی انسان کے بنائے ہوئے نہ کہ اللہ کے نازل کردہ) قانون نافذ ہو، البتہ وہاں کے قائدین اور حکومتی کارندے مسلمان ہوں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک اسی حکم میں ہیں، کوئی ملک حقیقی دارالاسلام کا مصداق و مجاز نہیں ہے۔ ابن العابدین تحریر فرماتے ہیں،
((لو أجریت احکام المسلمین فی بلد و أحکام أھل الشرک فلاتکون دار حرب مادامت تحت سلطتنا)) [3]
’’اگر کسی ملک میں مسلمانوں کے احکام بھی جاری ہوں، اوراہل شرک کے احکام بھی جاری ہوں،تو وہ ملک جب تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہے، وہ دار حرب نہیں ہوسکتا۔‘‘
[1] احکام اھل الذمہ، ج 2، ص 827۔
[2] المبسوط، ج 01، ص 441۔
[3] (شامی، ج 4، ص 571) ان دارالفسق ھی دارالاسلام۔ (نیل الاوطار، ج 7، ص 72)۔