کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 220
سفر میں افطار
43۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
((والصوم في السفر من شاء صام، ومن شاء أفطر۔))
’’اور سفر میں روزہ رکھنے میں اختیار ہے، جو چاہے روزہ رکھے او رجو چاہے افطار کرے۔‘‘
شرح، … قصر نماز کی طرح سفر یا بیماری کی حالت میں روزہ افطار کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں پر ایک صدقہ اور رخصت ہے، جس میں افطار کرنے اور روزہ رکھنے کا اختیار ہے، افضل رخصت پر عمل کرناہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
﴿اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾(البقرہ، 185)
’’جو کوئی تم میں سے یہ مہینہ پائے(یعنی صحیح اور مقیم ہو مسافر نہ ہو) وہ اس میں روزے رکھے اور جو بیمار یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔‘‘
جو کوئی سفر میں افطار کرنا چاہے تو اسے مذکورہ آیت کی روشنی میں اجازت ہے اور جو کوئی روزہ رکھنا چاہے تو اس کا روزہ بھی صحیح ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، ہم سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں؟(تو کیا پھر افطار کرنا لازمی ہے ؟) آپ نے انہیں روزہ رکھنے کی اجازت دے دی۔
اس لیے کہ سفر میں روزہ افطار کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رخصت ہے۔ رخصت پر عمل کرنا واجب نہیں ہوتا، بلکہ اس پر عمل کرنا افضل ہوتا ہے اور اگر کسی نے اس افضل کے خلاف عمل کرلیا تو اسے یہ نہیں کہا جائے گا کہ تمہارا عمل صحیح نہیں ہے۔ جب تک کہ وہ اس رخصت کے خلاف اعتقاد نہ رکھے۔
اس پیرائے کا بھی سابقہ پیرائے کی طرح عقیدہ سے تعلق رخصت کے حوالے سے ہے۔ ورنہ یہ فقہی مسئلہ ہے۔ کیونکہ بدعتی گروہ نے سفر میں افطار کی رخصت کاانکار کردیا تھا۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ رہا وہ سفر جس میں نماز قصر کی جائے گی، اس میں روزہ افطار کرنا بھی اتفاق ائمہ سے جائز ہے، اس کی قضاء کے ساتھ۔ خواہ اسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو، یا نہ ہو۔ یعنی اس طرح سے کہ وہ سائے میں سفر کررہا ہو، اور اس کے پاس-کھانا-پانی بھی موجود ہو، اور خدمت کرنے والے بھی ہوں اس کے لیے روزہ افطار کرنا اور رکھنا دونوں جائز ہیں اور جس نے یہ بات کہی کہ روزہ افطار کرنا صرف ان لوگو ں کے لیے جائز ہے جو روزہ رکھنے سے عاجز آگئے ہوں، تو اسے توبہ کرنے کا کہا جائے گا، اگر توبہ نہ کرے تو اسے قتل کیا جائے گا اور ایسے ہی جو کوئی سفر میں افطار کرنے والے پر نکیر کرے۔ اس سے اس بات پر توبہ کروائی جائے گی۔‘‘ [1]
[1] ’’ مجموع الفتاوی‘‘ (25/209)۔