کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 218
ہے۔ پس جو کوئی موزوں پر مسح کرنے کاانکار کرے، وہ اہل سنت و الجماعت سے خارج اور صحیح عقیدہ کا مخالف ہے۔کیونکہ موزوں پر مسح کرنا متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے، اور رخصت پر عمل کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إن اللّٰه یجب أن تؤتی رُخَصُہ کما یحب أن تؤتی معصیتہ)) [1] ’’بیشک اللہ تعالیٰ کو اس کی رخصت قبول کرنا ایسے ہی پسند ہے جیسے اس کو اپنی نافرمانی کرنا نا پسند ہے۔‘‘ توضیح، …احکام شریعت میں سے ہر ایک حکم، بھلے وہ عقیدہ میں نہ بھی داخل ہو، جس کی نصوص متواتر ہوں، یا سلف کا اس پر اجماع ہو، یا وہ صحیح حدیث سے ثابت ہو، اگرچہ وہ حد ِ تواتر کو نہ بھی پہنچے،اس کا انکار کرناعقیدہ کے مخالف امور میں شمار ہوگا۔اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ، 1۔ نماز پڑھنا فرض ہے اوراس کے فرض ہونے کا اعتقاد رکھنا بھی فرض ہے اور نماز کا سیکھنا بھی فرض اورنماز سے انکار یعنی اس کو نہ ماننا یا نہ جاننا کفر ہے۔ 2۔ مسواک کرنا سنت ہے۔ مگر اس کے سنت ہونے کا اعتقاد رکھنا فرض ہے اور اس کے سنت ہونے کا انکار کفر ہے۔ لیکن اس پر عمل کرنا اور اس کا علم حاصل کرنا سنت ہے۔اس کے علم سے نا واقف رہنا حرمانِ ثواب کا باعث ہے اور اس پر عمل نہ کرنا-ترک ِ سنت کی وجہ سے-عتاب یا عذاب کا موجب ہے۔ [2] اس سارے کلام کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ، ہر وہ ’’قطعی‘‘ اور ’’یقینی ‘‘ امر شرعی، جواس قدر واضح ہوکہ اس کے تعبیر کرنے والے الفاظ اوران کے معانی کوہراعلی، ادنی اور متوسط درجہ کا آدمی آسانی سے جانتا اور سمجھتا ہو، اور ان کی مراد بھی اتنی واضح ہو کہ اس کے متعین کرنے کے لیے دلائل وبراہین کی کھینچ تان کی ضرورت نہ ہو۔ ایسا امر شرعی جب صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہو، اس پر بعینہٖ اور ہو بہو اسی ظاہری صورت میں بغیر کسی تاویل وتصرف کے ایمان لانا فرض ہے، اس کا انکار کرنا اور اس میں کوئی تاویل اور تصرف کرنا کفر ہے۔‘‘[3] اس لیے سنت کی اہمیت سمجھانے کے لیے سلف نے اس مسئلہ کی مثال کے طور پر مسح علی الخفین [في الوضوئ](وضوء میں موزوں پر مسح کرنا) کو ذکر کیا ہے۔ اس مسئلہ میں رافضہ اور دوسرے لوگوں نے دو طرح سے اختلاف کیا ہے، ا۔ رافضی موزوں پر مسح کو جائز نہیں کہتے۔ 2۔ وضوء میں بغیر پاؤں دھونے کے مسح کو جائز سمجھتے ہیں بھلے موزے نہ بھی پہنے ہوں۔
[1] مسند أحمد بن حنبل 2/ 108، صحیح ابن خزیمۃ (2027)، ابن حبان (2742)، و صححہ الألباني في صحیح الجامع ((1885)۔ [2] مزید تفصیل کے لیے دیکھیں، (انور شاہ کشمیری، اکفار الملحدین ص73)۔ [3] اکفار الملحدین 74 ۔