کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 217
یہ سزا غیر شادی شدہ کے لیے ہے، جب کہ شادی شدہ کے لیے سنگسار کی سزا ہے۔یہ سزا بھی شریعت اسلامیہ کی طے شدہ حدود میں سے ایک ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،
’’ خبردار کہ کہیں آیت رجم کے بارے میں ہلاکت کا شکار نہ ہوجاؤ۔ کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ دو حدیں ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے، لیکن یقیناًہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا۔‘‘اور مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں زیادہ کردیا ہے، تو میں اسے بھی لکھ دیتا،
((الشیخ والشیخۃ فارجموھما البتۃ)) [1]
’’شادی شدہ مرد و عورت-جب زنا کریں-تو ان دونوں کو حتمی طور پر رجم کردو۔‘‘
اس آیت کا الفاظ منسوخ ہوچکے ہیں مگر حکم باقی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے خود رجم کیا، جن میں حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ، بنی غامدی ایک عورت[ رضی اللہ عنہا ]، اور ایک دیہاتی عورت کو رجم کرنے کے واقعات مستند اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں اورمسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ جو کوئی بھی شادی شدہ آزاد اور عاقل مسلمان خواہ و ہ مرد ہو یا عورت، بغیر کسی و شبہ اپنی رضامندی سے زنا کرے گا اسے سنگسار کیا جائے گا، اور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے لگائے جائیں گے۔ جب کہ غلام اور باندی کو کوڑے ہی لگائے جائیں گے۔ ان کے ساتھ یہ رعایت اللہ کی طرف سے ہے۔
مصنف رحمہ اللہ کے زمانہ میں جہمیہ،خوارج، فلاسفہ اور دوسرے بعض باطل فرقوں نے حدود کا انکار کیا تھا۔ اس لیے مصنف اسے یہاں پر بیان کررہے ہیں۔جس سے ان کے سنت وشریعت ہونے کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں۔
موزوں پرمسح
41۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((والمسح علی الخفین سنۃ۔))
’’موزوں پر مسح کرنا سنت ہے۔ ‘‘
شرح، … اس پیرائے سے ان شرعی امور کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو قطعی دلائل سے معلوم ہیں۔
اگرچہ یہ مسئلہ فقہ سے تعلق رکھتا ہے، مگر اس کا تعلق عقیدہ سے بھی ہے، اس لیے مصنف نے اسے یہاں پر ذکر کیا
[1] موطا امام مالک، باب ما جاء في الرجم، ح، 1506۔ بخاری، باب، رجم الحبلی في الزنا إذا أحصنت، 6442، مسلم، کتاب الحدود، باب، رجم الثیب في الزنا، ح، 1691۔