کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 214
توبہ کا دروازہ 39۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ((ما من ذنب إلا وللعبد منہ توبۃ۔)) ’’کوئی بھی گناہ انسان کا ایسا نہیں ہے جس کی توبہ نہ ہو۔ ‘‘ شرح، … کوئی بھی گناہ ایسا نہیں ہے جس پر توبہ نہ ہو۔یہا ں تک کہ شرک سے بھی اگر انسان سچے دل سے توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائیں گے، اور گناہ بخش دیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُo﴾(الزمر، 53) ’’(اے پیغمبر! میری طرف سے) کہہ دو اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے(اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اور توبہ کا یہ دروازہ انسان کی سانسیں اکھڑ جانے تک کھلا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ حَتَّی إِذَا حَضَرَ أَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّیْ تُبْتُ الآنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَہُمْ کُفَّارٌ أُوْلَئِکَ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً ﴾(النساء، 18) ’’ اور ایسے لوگوں کی کوئی توبہ نہیں ہوتی جو(ساری عمر) برے کام کرتے رہے یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو اُس وقت کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ اُن کی(توبہ قبول ہوتی ہے)جو کفر کی حالت میں مریں۔ ایسے لوگوں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توبہ کا آخری وقت بتاتے ہوئے فرمایا: ((من تاب قبل أن تطلع الشمس من مغربہا،تاب اللّٰه علیہ))[1] ’’جس کسی نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ کرلی، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں۔‘‘ دوسرا وقت ہر انسان کے ساتھ خاص ہے۔یعنی اس کی سانس اکھڑنے سے قبل توبہ کر لینی چاہیے۔اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا معاملہ بہت ہی خطرہ میں ہے۔ اس وقت کی بابت حدیث میں ہے، ((إن اللٰہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر)) [2] ’’ اللہ تعالیٰ بندے کی سانس اکھڑنے تک اس کی توبہ قبول کرتے ہیں۔‘‘
[1] مسلم، باب استحباب الاستغفار و الاستکثار منہ، 7036۔ابن حبان 629۔ [2] رواہ الترمذی، باب فضل التوبۃ والاستغفار وما ذکر رحمۃ اللّٰه لعبادہ،ح، 3537۔قال الترمذي، حسن غریب، قال الألباني، حسن۔صحیح ابن حبان 628۔مسند أبي یعلی 5717 ۔مسند أحمد 6160۔